1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں آن لائن بینکنگ ہیکرز کی زد میں

Adnan ishaq8 اکتوبر 2012

دنیا بھر میں سائبر حملوں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یورپی یونین کے دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے لیکن آج کل جرمنی میں ہیکرز کی توجہ آن لائن بینکنگ پر مرکوز ہے۔

تصویر: Fotolia

آپ گھر میں ہوں، آفس میں یا سفر میں ہی کیوں نہ ہوں، آپ کو انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہو تو آپ بینک کے تمام معاملات کسی بھی اسمارٹ فون کے ذریعے نمٹا سکتے ہیں اور لوگ ایسا کر بھی رہے ہیں۔ جرمنی میں اٹھارہ سال سے زائد عمر کا ہر دوسرا نوجوان آن لائن بینکنگ کی سہولت سے مستفید ہو رہا ہے۔ یہ نتائج جرمن بینکوں کی وفاقی تنظیم کی جانب سے کرائے جانے والے ایک جائزے میں سامنے آئے ہیں۔ بینکوں کے صارفین کی ایک بڑی تعداد کا موقف ہے کہ آن لائن بینکنگ سے وقت کی بچت ہوتی ہے۔ لیکن اگر کسی بینک پر ہیکرز حملہ کر دیں تو اس کی ویب سائٹ یا تو بند ہو جاتی ہے یا پھر انتہائی سست رفتار ہو جاتی ہے۔ یہ صورتحال صارف کے لیے انتہائی پریشان کن ہوتی ہے۔

یورپی کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2010ء کے دوران ہر پانچویں کمپنی پر ہیکرز نے حملہ کیا۔ جرمن اور یورپی بینکوں نے اس تناظر میں ابھی حال ہی میں سائبر حملوں کے خلاف ایک نظام تیار کیا ہے اور اس پر آزمائشی طور پر کام بھی جاری ہے۔ تاہم اس نظام کے کارآمد ہونے کے حوالے سے ابھی تک نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ امریکا میں بھی ہیکرز بینکوں کی ویب سائٹس کو نشانہ بنا کر ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ امریکا میں"Cyber fighters of Izz ad-din Al qassem" عز الدين القاسم کے سائبر فائٹر نامی ایک گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ جب تک انٹرنیٹ سے حال ہی میں منظر عام پر آنے والی اسلام مخالف فلم ہٹائی نہیں جاتی، یہ حملے جاری رہیں گے۔

مذہبی اور سیاسی مقاصد کے علاوہ ہیکرز پیسہ بنانے کے لیے بھی حملے کرتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

مذہبی اور سیاسی مقاصد کے علاوہ ہیکرز پیسہ بنانے کے لیے بھی حملے کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ سکیورٹی کے ایک ماہر نے بتایا کہ جب کسی ہیکر گروپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ کسی کمپنی کے انٹرنیٹ سکیورٹی سسٹم میں کمزوریاں موجود ہیں، تو وہ متعلقہ کمپنی کو سائبر اٹیک کی دھمکیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اکثر کمپنیاں اس صورتحال میں ہیکرز کے مطالبے تسیلم کرتے ہوئے انہیں رقم فراہم کر دیتی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر پیٹرک ہوف بتاتے ہیں کہ اس صورتحال کا آسان حل یہی ہے کہ پیسے دے کر جان چھڑا لی جائے کیونکہ دوسرا راستہ پیچیدہ ہی نہیں بلکہ اکثر اس میں پیسے بھی زیادہ خرچ ہوتے ہیں۔

A. Allmeling / ai / mm

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں