یورپ میں بغیر ویزا سفر کی اجازت معطل کرنا آسان بنایا جائے
شمشیر حیدر29 اپریل 2016
جرمنی اور فرانس نے یورپی یونین میں ایک ایسی تجویز پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہنگامی صورت میں یورپی یونین میں بغیر ویزا سفر کی سہولت معطل کرنے کا قانون آسان کر دیا جائے۔
اشتہار
یورپی کمیشن نے فرانس اور جرمنی کی اس تجویز پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے جس میں ان دونوں رکن ممالک نے کمیشن سے درخواست کی ہے کہ ہنگامی صورتحال کے دوران یورپی یونین میں ویزا فری سفر کی سہولت معطل کرنے کے لیے طریقہ کار آسان کر دیا جائے۔
برلن اور پیرس حکام نے یورپی کمیشن کے سامنے باقاعدہ طور پر یہ تجویز پیش کر دی ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ یورپ میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں اضافے، غیر ملکیوں کے مقررہ مدت سے زیادہ قیام اور ملک بدری قبول کرنے سے انکار جیسے مسائل سے بچنے کے لیے سخت طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ دونوں ممالک کی جانب سے پیش کردہ تجویز میں کہا گیا ہے کہ ایسی صورت میں ویزا فری سہولت معطل کرنے کا طریقہ کار آسان کر دیا جائے۔
ان تجاویز کا بظاہر مقصد ترکی، یوکرائن اور جارجیا جیسے ممالک کے باشندوں کے لیے یورپ میں بغیر ویزا سفری سہولت فراہم کرنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔
یورپی کمیشن کے سامنے پیش کیے گئے مجوزہ منصوبے کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک کسی بھی ایسے ملک کے عوام کے لیے بغیر ویزا سفر کی سہولت چھ ماہ کے لیے معطل کر سکیں گے۔ تاہم یورپی یونین کے اراکین کی اکثریت اگر ایسے اقدام کے خلاف رائے شماری کے ذریعے فیصلہ سنا دے تو ایسی صورت میں انفرادی ملک کا فیصلہ کالعدم ہو جائے گا۔
یورپ اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق ترک شہریوں کو یورپی یونین کی حدود میں ویزے کے بغیر سفر کرنے کی سہولت مہیا کر دی جائے گی۔ اس ضمن میں ترکی کو یونین کی جانب سے طے کردہ 72 شرائط پوری کرنا ہیں۔ یورپی کمیشن چار مئی کے روز اس بات کا جائزہ لے گا کہ ترکی نے ان میں سے تب تک کتنی شرائط پوری کی ہیں۔
جرمنی اور فرانس نے کمیشن سے درخواست کی ہے کہ بغیر ویزا سفر کی سہولت معطل کرنے کے قانون میں آسانی بھی اسی وقت کر دی جائے۔
تاہم یورپی یونین کی ایک خاتون ترجمان کے مطابق یورپی قوانین میں ہنگامی صورت حال کے دوران ویزا فری سہولت معطل کرنے کی شق پہلے سے ہی موجود ہے۔ اس ترجمان کا کہنا تھا، ’’یورپی کمیشن کی جانب سے معطلی کے موجودہ طریقہ کار کا از سرِ نو جائزہ لیے جانے کا فی الحال کوئی منصوبہ نہیں ہے۔‘‘
جرمنی اور فرانس کی اس تجویز کو یونین کے کئی دیگر رکن ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ موجودہ قانون کے مطابق بغیر ویزا سفری سہولت معطل کرنے کے لیے اب تک حکام کو طویل وقت درکار ہوتا ہے۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘