یورپ میں حملوں کے منصوبہ ساز داعش رہنما امریکی حملے میں ہلاک
4 اپریل 2023
امریکی فورسز نے شام میں ایک نامعلوم مقام پر داعش کے سینیئر رہنما خالد ایاز احمد الجبوری کو ہلاک کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ یورپ میں متعدد حملوں کی منصوبہ سازی الجبوری نے ہی کی تھی۔
اشتہار
امریکی فورسز نے شام میں ایک نامعلوم مقام پر داعش کے سینیئر رہنما خالد ایاز احمد الجبوری کو ہلاک کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ یورپ میں متعدد حملوں کی منصوبہ سازی الجبوری نے ہی کی تھی۔
امریکی سینٹرل کمان (سینٹ کوم) نے منگل کے روز بتایا کہ امریکہ نے پیر کے روز شام میں ایک فوجی کارروائی کی جس میں داعش کے سینیئر رہنما خالد ایازاحمد الجبوری ہلاک ہو گئے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ الجبوری نے یورپ میں داعش کے متعدد حملوں کی منصوبہ سازی کی تھی اور انہوں نے گروپ کے اندر قیادت کا ایک ڈھانچہ بھی کھڑا کر دیا تھا۔
داعش کی صلاحیتوں کو عارضی نقصان پہنچنے کی امید
سینٹ کوم نے یہ واضح نہیں کیا کہ امریکی فورسز نے کس مقام پر حملہ کیا لیکن اس بات کی تصدیق کی کہ اس کارروائی میں "کوئی شہری ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔"
سن 2019 میں داعش کو شام میں اس کے آخری ٹھکانے سے نکال باہر کیا گیا تھا۔
سینٹ کوم کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے کہا کہ حالانکہ یہ گروپ اب پہلے کی طرح طاقت ور نہیں رہ گیا ہے لیکن اس نے "مشرق وسطیٰ کے باہر بھی حملے کرنے کی خواہش رکھتے ہوئے خطے کے اندر اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔"
سینٹ کوم کے بیان میں کہا گیا ہے کہ الجبوری کی ہلاکت سے "بیرونی حملوں کا منصوبہ تیار کرنے کی تنظیم کی صلاحیت عارضی طور پر متاثر ہو گی۔"
داعش کی رکن کے والد اپنی بیٹی، نواسے کی واپسی کے لیے پر امید
03:29
بین الاقوامی امن کے لیے مسلسل خطرہ
سن 2014 میں اپنے عروج کے دوران داعش نے عراق اور شام کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا تھا۔
تاہم دونوں ملکوں میں اس گروپ کو بہر حال پسپائی اختیار کرنی پڑی۔
یورپ میں حالیہ برسوں میں ہونے والے کئی ہلاکت خیز حملوں کے لیے داعش کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ ان میں نومبر 2015 میں پیرس اور اس کے نواحی علاقوں میں ہونے والے حملے شامل ہیں، جن میں 130 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے فروری میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق داعش کے اراکین کی تعداد اب بھی پانچ ہزار سے سات ہزار کے قریب ہے اور عراق اور شام میں اس کے حامی موجود ہیں۔
سن 2022 میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعش کی طرف سے بین الاقوامی امن کو لاحق خطرات سن 2022 کے دوسرے نصف میں اپنے عروج پر تھیں۔
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔