یورپ میں خواتین کے قتل کے سب سے زیادہ واقعات فرانس میں کیوں؟
24 نومبر 2019
یورپ میں خواتین کے قتل کے سب سے زیادہ واقعات فرانس میں پیش آتے ہیں۔ حکومت عورتوں کے بہتر تحفظ کے لیے نئی قانون سازی پر کام کر رہی ہے مگر خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے مطابق صرف یہ نیا قانون بھی کافی ثابت نہیں ہو گا۔
اشتہار
آنیک گوٹیئر کو لگتا ہے کہ جیسے انہیں عمر بھر کے لیے سزا دے دی گئی ہو۔ ان کی 28 سالہ بیٹی ہیلین کو مارچ 2017ء میں شمال مشرقی فرانسیسی شہر رائم میں اس کے سابق بوائے فرینڈ نے قتل کر دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ''میری بیٹی نے اپنے بوائے فرینڈ سے چھ ہفتے قبل علیحدگی اختیار کر لی تھی مگر وہ اسے مسلسل ہراساں کرتا رہتا تھا۔ ایک صبح وہ اس اصطبل کے باہر میری بیٹی کا انتظار کر رہا تھا، جہاں وہ کام کرتی تھی۔ اس نے ہیلین سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ چلے۔ ہیلین نے انکار کر دیا، تو اس نے چاقو سے اس کے دل اور پھیپھڑوں پر وار کر کے اسے وہیں قتل کر دیا۔‘‘ آنیک گوٹیئر کہتی ہیں کہ وہ اس بات پر ابھی تک یقین نہیں کر سکتیں کہ وہ اپنی بیٹی سے اب دوبارہ کبھی نہیں مل پائیں گی۔
'قصور نظام کا بھی ہے‘
ستاون سالہ گوٹیئر کہتی ہیں کہ جو کچھ ان کی بیٹی کے ساتھ ہوا، اس کا ذمے دار صرف مقتولہ کا سابق بوائے فرینڈ اور قاتل ہی نہیں بلکہ اس کی ایک وجہ فرانسیسی پولیس بھی ہے۔ ''جب اس نے میری بیٹی کو قتل کیا، اس سے صرف دو ہفتے قبل وہ ایک بار کھڑکی کا شیشہ توڑ کر اس کے گھر میں داخل ہو گیا تھا اور سمجھتا تھا کہ ہیلین نے کسی دوسرے نوجوان سے ملنا شروع کر دیا تھا۔‘‘
آنیک گوٹیئر کے مطابق ان کی بیٹی نے پولیس کو اس واقعے کی اطلاع دی تھی مگر وہ مقامی پولیس اسٹیشن سے روتی ہوئی واپس آئی تھی۔ تب اس نے اپنی والدہ کو بتایا تھا کہ پولیس کے مطابق، ''یہ تو عام سا واقعہ تھا۔ پولیس نے یہ تسلیم ہی نہیں کیا تھا کہ بعد میں قتل جیسے حتمی اقدام پر اتر آنے والا یہ شخص کوئی خطرناک آدمی تھا۔‘‘
ہیلین کی والدہ کے مطابق بعد میں ان کی بیٹی نے اپنے اس سابق بوائے فرینڈ کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا ارادہ ہی ترک کر دیا تھا۔ آنیک گوٹیئر کہتی ہیں، ''میں آج کے فرانسیسی معاشرے سے سخت نالاں ہوں، جو ایک پدر شاہی معاشرہ ہے، جہاں بات اگر عورتوں کے تحفظ کی ہو، تو مرد مردوں کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔‘‘
فرانس میں سالانہ 130 سے زائد عورتوں کا قتل
ہیلین کے قتل کا واقعہ فرانس میں ہر سال رونما ہونے والے ایسے جرائم میں سے صرف ایک واقعہ ہے۔ فرانس میں عورتوں کے قتل کے واقعات یورپ کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ پیش آتے ہیں۔ سال رواں کے دوران بھی 130 سے زائد فرانسیسی عورتیں اپنے شوہروں، دوستوں یا سابق بوائے فرینڈز کے ہاتھوں قتل ہو چکی ہیں۔
فرانسیسی خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم 'نُوں تُو‘ (NousToutes) یا 'ہم سب‘ گزشتہ چند برسوں سے ملک میں ایسے ہر قتل کا سوشل میڈیا پر ریکارڈ رکھتی ہے۔ یہ تنظیم فرانس میں عورتوں کے قتل کے خلاف اکثر احتجاجی مظاہرے بھی کرتی رہتی ہے۔
ایسے ہی ایک مظاہرے میں حال ہی میں ہفتے کے روز پیرس کے مشرقی حصے میں 'پلاس دے لا باستِیل‘ کے مقام پر اس تنظیم کی درجن بھر خواتین زمین پر اس طرح لیٹی رہیں، کہ جیسے انہیں قتل کر دیا گیا تھا اور کوئی بھی اس طرف دھیان نہیں دے رہا تھا۔ اس دوران لاؤڈ اسپیکروں پر خواتین ایسے نعرے بھی لگا رہی تھیں: ''میں نے اپنے بوائے فرینڈ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور اب وہ مجھے دھمکیاں دے رہا ہے۔‘‘
خواتین کا معیار زندگی: پاکستان بدترین ممالک میں شامل
خواتین، امن اور تحفظ سے متعلق شائع ہونے والے ایک انڈیکس کے مطابق خواتین کے معیار زندگی کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے آٹھ بد ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس انڈیکس میں صرف شام، افغانستان اور یمن پاکستان سے پیچھے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
خواتین کی فلاح اور ان کی زندگی میں بہتری
جارج ٹاؤن انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں تین مختلف زاویوں سے خواتین کی فلاح اور ان کی زندگی میں بہتری کا تعین لگایا جاتا ہے۔ ان تین زاویوں میں معاشی، سماجی اور سیاسی شمولیت، قانون تک رسائی، اپنے علاقوں، خاندان اور سماجی سطح پر تحفظ کا احساس شامل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
خواتین معاشی طور پر خود مختار نہیں
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر خواتین معاشی طور پر خود مختار نہیں ہیں۔ صرف سات فیصد خواتین کے پاس اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹ ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Ali
مردوں اور خواتین میں مساوات کا تناسب کم
جارج ٹاؤن انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 34 ممالک میں انصاف سے متعلق مردوں اور خواتین میں مساوات کا تناسب کم ہوا ہے۔ اس حوالے سے سب سے خراب کارکردگی پاکستان کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum
خواتین کی نوکریاں
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 75 فیصد مردوں کی رائے میں ان کے لیے یہ ناقابل قبول ہے کہ خواتین ایسی نوکری کریں جن سے انہیں کوئی معاوضہ وصول ہو۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
تحفظ کا احساس
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سماجی لحاظ سے پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے احساس میں کچھ حد تک بہتری آئی ہے۔ پاکستانی خواتین کا کہنا تھا کہ وہ شام کے اوقات میں اپنے محلے میں تنہا چلتے ہوئے غیر محفوظ محسوس نہیں کرتیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum
خواتین کے لیے بدترین ممالک
اس اشارعیہ میں خواتین کے حوالے سے بدترین ممالک میں پاکستان کے علاوہ لیبیا، عراق، کانگو، جنوبی سوڈان، شام، افغانستان، وسطی افریقی ریاست شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Zahir
جرمنی کا نمبر اس فہرست میں سترہواں
اس رپورٹ میں دنیا کے 167 ممالک کا جائزہ لیا گیا تھا۔ خواتین کی فلاح اور ان کی معیار زندگی کے لحاظ سے ناروے دنیا کا سب سے بہترین ملک ہے۔ جرمنی کا نمبر اس فہرست میں سترہواں ہے۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
7 تصاویر1 | 7
خواتین کے تحفظ کے لیے نیا قانون
فرانسیسی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کی سنجیدگی سے پوری طرح آگاہ ہے اور خواتین کے بہتر تحفظ کے لیے نئی قانون سازی کی کوششیں کر رہی ہے۔ اس آئندہ قانون کے تحت پرتشدد مردوں کو ایسے الیکٹرانک کڑے پہنائے جائیں گے، جن کی مدد سے انہیں ان خواتین سے دور رکھا جا سکے گا، جن کو ایسے مردوں اور ممکنہ مجرموں سے خطرہ ہو۔
اس کے علاوہ موجودہ حکومت کا ایک ارادہ یہ بھی ہے کہ فرانسیسی عدالتیں آئندہ ایسے پرتشدد مردوں کو چھ روز تک جیل میں رکھنے کے احکامات بھی جاری کر سکیں گی اور ساتھ ہی متاثرہ خواتین کے لیے اور زیادہ 'محفوظ رہائش گاہیں‘ بھی قائم کی جائیں گی۔
فیصلہ کن اقدام جس کا 'کوئی ذکر ہی نہیں‘
آنیک گوٹیئر کہتی ہیں کہ پیرس حکومت اس سلسلے میں جو نئی قانون سازی کرنے کی کوششیں کر رہی ہے، اسے ایک اچھا آغاز تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن صرف یہ قانون اکیلا ہی کافی نہیں ہو گا۔
اب دبلی پتلی ماڈل نہیں چلے گی
فرانس میں مجسم نمونہٴ حسن بننے کی خواہش میں حد سے زیادہ دبلی پتلی نظر آنے والی ماڈلز پر ایک نئے قانون کے ذریعے پابندی نافذ کر دی گئی ہے۔ فرانس کی تمام ماڈلز کو اب ماڈلنگ سے قبل اچھی صحت کی طبی سند دکھانا ہو گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
ترشا ہوا جسم
فیشن میگزین میں یا پھر کسی بیوٹی پروڈکٹ کے اشتہار میں ماڈل کو ایسے ترشے ہوئے بدن کے ساتھ دکھایا جاتا ہے کہ وہ حقیقت سے بہت دور لگتا ہے۔ ’فوٹوشاپ‘ کا استعمال کر کے آنکھیں بڑی بڑی اور ہونٹ بھرے ہوئے دکھائے جاتے ہیں۔
تصویر: AP
ٹچ اپ
فرانس میں ایک نیا قانون بنایا گیا ہے، جس کے تحت اس طرح کی تصویر کے نیچے صاف صاف لکھا ہونا ضروری ہو گا کہ اس میں ’فوٹوشاپ‘ کے ذریعے تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ایسی تصویر کے نیچے ’ٹچ اپ‘ لکھا جائے گا۔
تصویر: haveseen - Fotolia
ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ
اس کے علاوہ ماڈل کو ڈاکٹر کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہو گی، جس پر لکھا ہو گا کہ وہ صحت مند ہیں اور حد سے زیادہ دبلی پتلی نہیں۔ اس کے لیے ان کے بی ایم آئی (باڈی ماس انڈیکس) کی رپورٹ تیار کی جائے گی۔
تصویر: AP
غذائی قلت کا شکار
بی ایم آئی میں قد کی مناسبت سے وزن کو پرکھا جاتا ہے۔ ساتھ ہی عمر پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ ایک صحت مند شخص کا بی ایم آئی 18 سے 25 کے درمیان ہوتا ہے۔ 18 سے کم کو غذائی قلت کا شکار سمجھا جاتا ہے جبکہ ماڈل گرلز کا بی ایم آئی زیادہ تر 15 سے 16 کے درمیان ہی ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G.I. Rothstein
کم وزن
اکثر ماڈل لڑکیوں کو وزن کم کرنے کو کہا جاتا ہے۔ بہت سی لڑکیوں کا وزن محض 40 اور 45 کلو گرام کے درمیان ہوتا ہے، اس کے لیے وہ اکثر خود کو دن بھر بھوکا رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
جرمانہ
قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ماڈل گرلز کو کام پر رکھنے والی ایجنسی کو سزا ہو سکتی ہے۔ اس میں چھ ماہ کی قید اور پچھتر ہزار یورو تک کا جرمانہ بھی شامل ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فرانس میں خود کو بھوکا رکھنے کی وجہ بیماری کی شکار نوجوان لڑکیوں کی تعداد 30 سے 40 ہزار کے درمیان ہے۔
تصویر: Reuters/Gonzalo Fuentes
بیمار نوجوان
صرف فرانس ہی نہیں، دنیا بھر میں انتہائی پتلی ماڈل نوجوان لڑکیوں کے لیے ایک مثال بنتی جا رہی ہیں۔ انہیں دیکھ کر دیگر لڑکیاں خود بھی ان جیسا بننے کی کوشش کرتی ہیں اور بیمار لگنے لگتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
سبق
فرانس سے پہلے اسرائیل اور اٹلی بھی انتہائی دبلی پتلی ماڈل لڑکیوں کو بائی بائی کر چکے ہیں۔ امید ہے کہ باقی کے ملک بھی اس سے سبق لیں گے اور آئندہ خوبصورت بھی انہی ماڈلز کو کہا جائے گا، جو صحت مند بھی ہوں گی۔
تصویر: Colourbox
8 تصاویر1 | 8
ان کا کہنا ہے، ''پرتشدد مردوں کو کلائی پر پہنائے جانے والے الیکٹرانک آلات وہ ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں، جن سے ایسے مردوں کو خطرات کا شکار خواتین سے دور رکھا جا سکتا ہے۔ ایسے اقدامات اسپین میں بھی مددگار ثابت ہوئے ہیں اور فرانس میں بھی ان سے فائدہ ہی ہو گا۔‘‘
تاہم گوٹیئر کہتی ہیں، ''ایک بہت اہم پہلو جس کا اب تک کسی نے ذکر نہیں کیا، وہ یہ ہے کہ ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے پولیس اہلکاروں کی نفسیاتی تربیت کی بھی ضرورت ہے، تاکہ انہیں پوری طرح احساس ہو سکے کہ جب ایسی کوئی خاتون اپنی شکایت لے کر کسی پولیس اسٹیشن جاتی ہے، تو وہ خود کو کس حد تک خطرے میں محسوس کر رہی ہوتی ہے۔‘‘
ان کے بقول خاص طور پر مرد پولیس اہلکاروں کو ایسے رویے اپنانا ہوں گے کہ جب کوئی عورت کسی مرد کے خلاف شکایت لے کر تھانے جاتی ہے، تو مردوں کو مردوں سے ہمدردی کرنے کے بجائے کسی بھی متاثرہ عورت کی شکایت بالکل ویسے ہی سننا چاہیے، جیسے کہ قانون کا تقاضا ہے۔ ''ایسا ہو گیا، تو بہت سی عورتوں کی جانیں بچائی جا سکیں گی اور ان کے خاندانوں کو شدید دکھ اور لامتناہی اذیت سے بچایا جا سکے گا۔‘‘
لیزا لوئیس، پیرس (م م / ع ح)
فرانسیسی ملکہ میری اینٹونیٹ کے زیورات کی نیلامی
انقلاب فرانس سے قبل کی ملکہ میری اینٹونیٹ کے ذاتی زیورات جنیوا کے مشہور نیلام گھر میں فروخت کیے جائیں گے۔ ان زیورات کو فرانسیسی ملکہ نے انقلاب کے بعد پیرس سے باہر منتقل کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/F. Augstein
تاریخی زیورات
نیلام کیے جانے والے بیش قیمت زیورات میں موتیوں سے جڑے نیکلس، ہیرے اور ملکہ کے بالوں کی لٹ والی انگوٹھی شامل ہیں۔ ان زیورات کو تقریباً دو صدیوں کے بعد جنیوا میں قائم ’سدے بیز‘ نیلام گھر میں فروخت کیا جائے گا۔ یہ زیورات فرانسیسی ملکہ کے زیراستعمال رہے تھے۔ سدے بیز کی ترجمان کے مطابق یہ انتہائی تاریخی نوادرات کی نیلامی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/F. Augstein
میری اینٹونیٹ: آسٹریا سے تعلق رکھنے والی فرانسیسی ملکہ
فرانس کی مشہور ملکہ میری اینٹونیٹ ویانا میں دو نومبر سن 1755 پیدا ہوئی تھیں۔ وہ آسٹریائی ملکہ ماریا تھریسا کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ سن 1793ء میں انقلاب فرانس کے بعد انقلابی عدالت کے فیصلے کے تحت صرف اڑتیس برس کی ملکہ کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور نعش ایک گمنام قبر میں پھینک دی گئی۔ اُن کی شادی فرانسیسی باشاہ لوئی اگسٹ سے ہوئی تھی۔
موتی اور ہیرے سے سجا ہار کا آویزہ
نیلامی کے لیے میری اینٹونیٹ کے گلے کا آویزہ بھی رکھا گیا ہے۔ اس میں جڑا قدرتی موتی اٹھارہ ملی میٹر لمبا ہے۔ توقع ہے کہ اس کی نیلامی ایک سے دو ملین ڈالر کے درمیان ممکن ہے۔ اس موتی والے آویزے کو فرانسیسی ملکہ نے صرف ایک مرتبہ پہنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Augstein
شاہی زیورات کا عالمی دورہ
نیلامی کے لیے رکھے گئے شاہی زیورات میں ہیرے کا بروچ اور کانوں کے پہننے والی بالیاں بھی شامل ہیں۔ ان زیورات کو نیلام کرنے سے قبل ہانگ کانگ، نیویارک، میونخ اور لندن سمیت دنیا کے کئی شہروں میں نمائش کی گئی تھی تا کہ خریدار نیلامی کے وقت اپنی بولی کا تعین کر سکیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
گلابی ہیرے اور بالوں کی چھوٹی سے لِٹ
ایک ایسی انگوٹھی بھی نیلام کے لیے موجود ہے، جس پر ملکہ میری اینٹونیٹ کے نام کے ابتدائی حروف ایم اے دکھائی دیتے ہیں اور ان میں گلابی ہیرے جڑے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی انگوٹھی میں ملکہ کے بالوں کی ایک لٹ بھی موجود ہے۔ اس وقت یہ تمام زیورات اطالوی شاہی خاندان بوربن پارما کے کنٹرول میں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
خاندانی زیورات کی واپسی
انقلاب فرانس کے بعد ملکہ میری اینٹونیٹ نے فرار کی کوشش کی تھی۔ اس کوشش سے قبل اپنے زیورات ایک لکڑی کے صندوق میں رکھ کر برسلز روانہ کر دیے تھے، جہاں سے یہ صندوق آسٹریائی بادشاہ کو پہنچا دیا گیا۔ ملکہ کے فرار کا منصوبہ ناکام ہو گیا لیکن اُن کی اکلوتی بیٹی تھریسا کو سن 1795 میں رہا کر دیا گیا اور جب وہ آسٹریا پہنچی تو لکڑی کا صندوق انہیں دے دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
شاہی تاج کے ہیرے
جنیوا کے سدے بیز کے نیلام گھر میں جو تاریخی اشیاء نیلامی کے لیے رکھی ہوئی ہیں، ان میں ملکہ میری اینٹونیٹ کے دوست اور شوہر کے بھائی چارلس دہم کے ملکیتی ہیرے بھی شامل ہیں۔