یورپ میں ’سخت تشریح والا اسلام‘ پھیلتا ہوا
21 جون 2015سکیورٹی حکام کے مطابق یورپ میں سلفی اسلام نے مساجد کے ساتھ ساتھ گلیوں میں بھی اپنے اثرورسوخ میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔ مسلمانوں کا یہ شدت پسند نظریات کا حامل گروہ قرآن کو سیاق و سباق سے قطعہء نظر لفظی طور پر پڑھتا اور کافی جانتا ہے۔
یورپی حکام کے خدشات کے مطابق سلفی تحریک نوجوان یورپی شہریوں کے شام اور عراق جا کر دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت کے لیے ایک ترغیبی قوت کا کام انجام دے رہی ہے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سلفی تحریک سے وابستہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پرامن ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جرمنی میں مجموعی طور پر سلفی مسلمانوں کی تعداد سات ہزار ہے۔ صرف چار برس قبل یہ تعداد 38 سو تھی، یعنی ان چار برسوں میں ان کی تعداد میں تقریباﹰ دوگنا اضافہ ہوا ہے۔
ادھر فرانس میں قریب سو مساجد سلفیوں کے قبضے میں ہیں۔ ایک سکیورٹی ماہر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ فرانس میں سلفی تحریک سے وابستہ افراد کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے، تاہم چار برس قبل یہ تعداد اس کا قریب نصف تھی۔
برطانیہ میں بھی ان سخت ترین نظریات کے حامل سلفی مسلمانوں کی تعداد میں ضافہ ہوا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق برطانیہ میں قائم 1740 مساجد میں سے تقریباﹰ سات فیصد سلفیوں کے زیرانتظام چل رہی ہے۔
برطانوی مسلم امور اور انسداد شدت پسندی کے حکومتی مشیر محمود نقش بندی کے بقول سلفی مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ نقش بندی کے مطابق برطانیہ میں 30 برس سے کم عمر کے ایک چوتھائی سے نصف مسلم نوجوان کسی نہ کسی حد تک سلفی نظریات کو قبول کرتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انٹرنیٹ ان سخت ترین نظریات کی ترویج میں ایک بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں میں شدت پسندانہ سوچ بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسی جگہوں پر بھی شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے، جہاں مسلمان آپس میں ملتے ہیں جن میں مساجد سرفہرست ہیں۔
فرانسیسی سکیورٹی اہلکار کے مطابق سلفی مسلمان میں شدت پسندی کا رجحان دیگر مسالک سے منسلک مسلمانوں کی نسبت زیادہ ہے۔
سکیورٹی حکام اور اعتدال پسند مسلمانوں کے مطابق فرانس میں سلفی تحریک ان دنوں ملک بھر کی مساجد پر قبضے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مساجد کے اماموں پر تنقید کا آغاز کیا، تاکہ ان مساجد سے امام نکالے جائیں اور ان کی جگہ وہ سلفی عقائد کے حامل افراد کو رکھیں۔ سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ نوجوان اور نومسلم افراد سلفی نظریات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔