یورپ میں عوامیت پسندانہ اجانب دشمنی کے تیز پھیلاؤ پر تشویش
22 جون 2018
یورپ میں غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف اور اجانب دشمنی پر مبنی سیاسی عوامیت پسندی کا تیز تر پھیلاؤ بہت زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ ایسے رویوں کے پریشان کن پھیلاؤ کے خلاف تنبیہ یورپی کونسل کے ماہرین کے ایک کمیشن نے کی ہے۔
اشتہار
فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے جمعہ بائیس جون کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ کونسل آف یورپ کے ماہرین کے اس کمیشن نے یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ یورپ میں عوامی سطح پر اظہار رائے کے لیے عوامیت پسند سیاسی رہنماؤں اور ان کے حامیوں کی طرف سے نفرت آمیز زبان اور جذباتی بیانات کا استعمال بھی تشویش ناک حد تک زیادہ ہو گیا ہے۔
کونسل آف یورپ کے ماہرین کے اس ادارے کا نام ’نسل پرستی اور عدم برداشت کے خلاف یورپی کمیشن‘ ہے، جس نے آج 22 جون کو جاری کردہ اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ کئی عوامیت پسند یورپی سیاستدانوں نے تارکین وطن کی یورپ آمد کو اپنے اپنے ممالک کے سماجی ڈھانچے اور سلامتی کے لیے خطرہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایسا کرتے ہوئے ان پاپولسٹ سیاستدانوں نے یہ بات قطعاﹰ نظر انداز کر دی کہ ان کے ایسے بیانات کے بالکل برعکس اسی حوالے سے ’شواہد کی بنیاد پر سامنے آنے والے حقائق‘ کس طرح کے امور کی نشان دہی کرتے ہیں۔
اس یورپی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت کئی یورپی ممالک میں تارکین وطن اور ایسے دیگر مقابلتاﹰ کم محفوظ سماجی گروپوں کے بنیادی حقوق کی نفی کو جائز ثابت کرنے کی کاوشیں کرتے ہوئے سلامتی سے متعلق خدشات کو نعرہ بنا کر ایک ہتھکنڈے کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
نسل پرستی اور عدم برداشت کے خلاف یورپی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ بہت سے یورپی ممالک تو اپنے ہاں مہاجرین اور تارکین وطن کے بہتر سماجی انضمام کے لیے واقعی وسیع تر کوششیں کر رہے ہیں، جن میں رہائش، تعلیم اور روزگار جیسے شعبے بھی شامل ہیں، تاہم ساتھ ہی اس بات پر بھی غیر معمولی حد تک زیادہ زور دیا جا رہا ہے کہ یورپ میں تارکین وطن کی آمد کو روکنے کی ضرورت ہے۔
پیرس میں اپنے ادارے کی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کونسل آف یورپ کے اس کمیشن کے سربراہ ژاں پال لیہنرز نے کہا، ’’یورپی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بیانیے کو زیادہ متوازن اور حقائق پر مبنی بنائیں، لیکن ساتھ ہی اس امر کو بھی یقینی بناتے ہوئے کہ تارکین وطن کی آمد کے ایک منظم نظام کی مثبت اہمیت بھی نظر انداز نہ کی جائے۔‘‘
م م / ش ح / ڈی پی اے
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔