یورپ میں منشیات کا استعمال، ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ
7 جون 2019
ایک تازہ مطالعے کے مطابق منشیات کی زیادہ مقدار لینے کی وجہ سے سن دو ہزار اٹھارہ کے دوران یورپ میں آٹھ ہزار دو سو افراد مارے گئے۔ تاہم امریکا کے مقابلے میں یہ تعداد دس گنا سے بھی کم ہے۔
تصویر: picture alliance/JOKER
اشتہار
بالخصوص گرمیوں کے دنوں میں بڑے بڑے یورپی شہروں کے کچھ مخصوص حصوں میں منشیات کی لت کے شکار افراد کھلے عام دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر شہر کے مرکزی علاقے یا ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی بسیرا کیے ہوتے ہیں۔
یہ لوگ زیادہ تر کوکین، ہیروئن اور دماغ کو سرور پہنچانے والی گولیاں استعمال کرتے ہیں۔ اسی دوران ضرورت سے زیادہ منشیات لینے کی وجہ سے متعدد افراد ہلاک بھی ہو جاتے ہیں۔
رواں سال جاری کی جانے والی یورپی ڈرگ رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ کے دوران منشیات کی زیادہ مقدار لینے کی وجہ سے یورپ بھر میں آٹھ ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔
سن دو ہزار سترہ کے مقابلے میں یہ تعداد تقریبا تین سو سے زائد بنتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یورپی باشندوں میں ہیروئن کے نشے کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ نشے کے عادی افراد میں ایچ آئی وی میں مبتلا ہونے کی شرح میں چالیس فیصد کمی نوٹ کی گئی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق 'ویڈ‘ یعنی قدرتی نباتات سے تیارہ کردہ نشہ آور مواد سب سے زیادہ مقبول ہے جبکہ کوکین کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ کوکین کی تجارت شہروں تک پہنچ چکی ہے جبکہ اسے فروخت کرنے والے اور خریدنے والے موبائل ایپس کا استعمال بھی کرنے لگے ہیں۔
تاہم سن دو ہزار اٹھارہ میں زیادہ منشیات لینے کی وجہ سے ہلاک ہونے والے کوکین یا ویڈ کی وجہ سے نہیں مارے گئے بلکہ ان کی ہلاکت کی وجہ افیون سے تیار کردہ منشیات بنیں۔ بتایا گیا ہے کہ اسّی فیصد ہلاکتوں کے پیچھے ہیروئن کا استعمال تھا۔
یہ افراد نشہ آور مواد کو انجیکشن کے ذریعے بھی بدن میں اتارتے ہیں۔ استعمال شدہ سرنجیں استعمال کرنے سے متعدد مہلک بیماریوں کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس طرح کے خطرات کو کم کرنے کی خاطر یورپی ممالک کی حکومتوں نے ان متاثرہ افراد کو مدد پہنچانے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔
ایسی ہی ایک مثال جرمن شہر بون میں واقع ایک کیفے بھی ہے، جہاں منشیات کے عادی افراد کو خصوصی توجہ فراہم کی جاتی ہے۔ 'کانٹیکٹ کیفے‘ میں محفوظ سرنجیں بھی دستیاب ہیں اور ایسے افراد کے لیے خوراک کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ ایسے سینٹرز کا مقصد نہ صرف ایسے لوگوں کو انتظامی مدد فراہم کرنا ہے بلکہ وہاں طویل المدتی بنیادوں پر نشے کی لت کو ختم کرنے کے پروگرام بھی چلائے جاتے ہیں۔
ع ب / ع ا/ خبر رساں ادارے
جرمنی: نت نئی منشیات کی ’تجربہ گاہ‘
آج کل دنیا بھر کی خفیہ لیبارٹریوں میں جو منشیات تیار کی جا رہی ہیں، اُن میں سے بیشتر کے پیچھے جرمن سائنسدانوں، فوج اور کاروباری اداروں کی اختراعی اور تخلیقی قوتیں اور جوش و جذبہ کارفرما رہا ہے۔
منشیات کے ذریعے حملہ
1939ء میں پولینڈ پر اور 1940ء میں فرانس پر کیے جانے والے حملوں میں ہٹلر نے ایسے فوجی سرگرمِ عمل کیے، جن کی استعدادِ کار کو کیمیاوی مادوں کی مدد سے بڑھایا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ صرف فرانس پر حملے کے دوران لڑنے والے دستے کو ہی پیرویٹین کی ’ٹینک چاکلیٹ‘ کہلانے والی پینتیس ملین گولیاں کھلائی گئی تھیں۔ دوسری طرف اتحادی افواج بھی کچھ ایسا ہی کر رہی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa-Bildarchiv
بیدار، نڈر اور بھوک سے بے نیاز
نازی جرمن فوج کی اس حیران کُن گولی کو سب سے پہلے ایک جاپانی نے مائع شکل میں تیار کیا تھا۔ برلن کی ٹیملر ورکس کمپنی کے کیمیا دانوں نے اس پر تحقیق کو آگے بڑھایا اور 1937ء میں ایک پیٹنٹ کا اندراج کروایا۔ ایک ہی سال بعد یہ باقاعدہ ایک دوا کے طور پر بازار میں آ گئی۔ اس دوا سے تھکاوٹ، بھوک، پیاس اور ڈر جاتا رہتا تھا۔ آج یہی ’پیرویٹین‘ غیر قانونی طور پر ایک اور نام ’کرسٹل مَیتھ‘ کے تحت فروخت کی جاتی ہے۔
خود ہی سب سے بڑا گاہک؟
مؤرخین کے مابین اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اڈولف ہٹلر خود بھی پیرویٹین کا نشہ کرتا تھا۔ ان کے ذاتی معالج تھیو موریل کی فائلوں میں اکثر نمایاں طور پر حرف ’ایکس‘ لکھا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ یہ کس دوا کی جگہ لکھا جاتا ہو گا۔ اتنی بات یقینی تصور کی جاتی ہے کہ ہٹلر کو بہت ہی سخت قسم کی ادویات دی جاتی تھیں، جن میں سے زیادہ تر آج کل کے ضوابط کی رُو سے ممنوع قرار پائیں گی۔
نت نئی منشیات بنانے والوں کی سرگرمیاں نازی دور سے بھی بہت پہلے شروع ہو چکی تھیں۔ جرمنی کی بائر کمپنی آج ایک عالمی ادارہ ہے۔ اس کمپنی نے اُنیس ویں صدی کے اواخر میں اپنی ایک بہت زیادہ بکنے والی دوا کا اشتہار کچھ ان الفاظ کے ساتھ دیا تھا: ’’ہیروئن کی بدولت کھانسی ختم۔‘‘ اس کے فوراً بعد مرگی، دمے، شیزوفرینیا اور دل کے عوارض کے لیے بچوں تک کو ہیروئن دی جانے لگی۔ اس دوا کا ضمنی اثر قبض بتایا گیا تھا۔
تخلیقی ذہن کے حامل کیمیا دان
فیلکس ہوفمان کو خاص طور پر اُن کی ایجاد کردہ اسپرین کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔ ان کا دوسرا کارنامہ یونہی سرِ راہے وجود میں آیا، جب وہ سرکے کے تیزاب کے ساتھ تجربات کر رہے تھے۔اسپرین کے برعکس اس بار اس کیمیا دان نے اس تیزاب کو مارفین یعنی پوست کے خشک ہو چکے جوس کے ساتھ ملا کر دیکھا۔ اُن کی بنائی ہوئی ’ہیروئن‘ جرمنی میں 1971ء میں پابندی لگنے سے پہلے تک قانونی طور پر فروخت ہوتی رہی۔
آنکھوں کے ڈاکٹروں کے لیے کوکین
جرمن شہر ڈارم اشٹٹ کے ادارے مَیرک نے 1862ء ہی میں کوکین کی پیداوار شروع کر دی تھی، تب آنکھوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اسے اپنے مریض کو بے ہوش کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس کی تیاری کے لیے البرٹ نیمان نامی جرمن محقق ایک عرصے تک جنوبی امریکا سے آئے ہوئے کوکا کے پتوں کے ساتھ تجربات کرتا رہا تھا۔ نیمان کوکین تیار کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد انتقال کر گیا تھا لیکن کوکین سے نہیں بلکہ نمونیے سے۔
تصویر: Merck Corporate History
’جوش اور کام کرنے کی صلاحیت‘
بابائے نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اپنی تحریروں میں کوکین کو بے ضرر قرار دیا اور کہا کہ اسے استعمال کرنے سے انسان کے اندر جوش بھر جاتا ہے، وہ زندگی کی حرارت محسوس کرتا ہے اور اُس میں کام کرنے کی قوت آ جاتی ہے۔ بعد میں ایک دوست کے منشیات کے استعمال کے نتیجے میں انتقال کے بعد فرائیڈ کے کوکین کے بارے میں جوش و خروش میں بھی کمی آئی۔ تب ڈاکٹر سر درد اور پیٹ درد کے لیے بھی کوکین کے استعمال کی ہدایت کرتے تھے۔
تصویر: Hans Casparius/Hulton Archive/Getty Images
ایکسٹیسی کا فراموش کردہ پیٹنٹ
امریکی کیمسٹ الیگزینڈر شَلگن کو آج کے دور میں بہت زیادہ استعمال ہونے والی نشہ آور دوا ایکسٹیسی کا موجد سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس رنگا رنگ ٹیبلٹ کی تیاری کا ابتدائی نسخہ جرمن دوا ساز ادارے مَیرک نے تیار کیا تھا۔ 1912ء میں اس ادارے نے ایک بے رنگ تیل کو ایم ڈی ایم اے کے نام سے پیٹنٹ کروایا تھا۔ اُس دور میں کیمیا دانوں نے اس مادے کو کاروباری مقاصد کے لیے بے فائدہ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/epa/Barbara Walton
جرمن کیمیا دانوں کے کارناموں کی باز گشت آج بھی
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سن 2013ء میں دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ نوّے ہزار انسان غیر قانونی منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ قانونی نشے الکوحل کے حوالے سے دیکھا جائے تو اعداد و شمار اور بھی زیادہ تشویشناک ہیں: عالمی ادارہٴ صحت ڈبلیو ایچ او کے 2012ء کے لیے اندازوں کے مطابق 5.9 فیصد یعنی تقریباً 3.3 ملین اموات الکوحل کے استعمال کا نتیجہ تھیں۔