یورپ میں مہاجرین پر حملے پریشان کن ہیں، بان کی مون
شمشیر حیدر20 اپریل 2016
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے یورپ بھر میں مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ یورپ کی جانب ہجرت کرنے کی بنیادی وجوہات کا حل ’سیاسی عزم‘ سے نکالا جائے۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی دی ہیگ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے یورپ بھر میں مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بان کی مون کا کہنا تھا، ’’یورپ بھر میں مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور ایسے مجبور انسانوں کے خلاف پُر تشدد حملے نہایت تشویش ناک ہیں۔‘‘
عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل کا مزید کہنا تھا، ’’اس طرح کے واقعات منقسم طبقات میں عدم استحکام کا بیج بو دینے کے مترادف ہیں اور یہ انسانی حقوق کے معیارات، جو کہ بین الاقوامی یک جہتی کو فروغ دیتے ہیں، کی بھی خلاف ورزی ہے۔‘‘
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک یورپ میں مہاجرین کے بد ترین بحران کے دوران صرف گزشتہ برس کے دوران ہی گیارہ لاکھ سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن یورپ پہنچے تھے۔ رواں برس کے آغاز سے اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد مزید تارکین وطن ترکی سے بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر کر کے غیر قانونی طور پر یورپ پہنچ چکے ہیں۔ ان پناہ گزینوں کی اکثریت کا تعلق مشرق وسطیٰ کے شام اور عراق جیسے شورش زدہ ممالک سے ہے۔
یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے پاکستانی
02:33
اس سے قبل منگل کی شام بان کی مون نے ہالینڈ کے وزیر خارجہ بیرٹ کوُنڈرس سے ملاقات کے دوران پناہ گزینوں اور شامی خانہ جنگی سمیت دیگر امور پر گفتگو کی۔ کوُنڈرس گزشتہ ہفتے مغربی افریقی ممالک کے دورے پر گئے تھے، جہاں انہوں نے معاشی بنیادوں پر یورپ کی جانب ترک وطن روکنے سے متعلق مذاکرات کیے تھے۔
کوُنڈرس سے ملاقات کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بان کی مون کا کہنا تھا، ’’ہمیں معاشرتی تقسیم سے بچنے کے لیے کھلے دل اور ایمانداری کے ساتھ تعمیری بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ مہاجرین کا بحران حل کرنے کے لیے تارکین وطن کے آبائی وطنوں میں ان بنیادی مسائل کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے، جن کی وجہ سے لوگ ہجرت پر مجبور ہو رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے یورپ کی جانب سے مہاجرین کے بحران کو حل کرنے کے لیے اب تک کیے گئے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات ایک مشترکہ بین الاقوامی رد عمل کے متقاضی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تنازعات کا حل تلاش کرنے کے علاوہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھی نمٹا جانا چاہیے۔
ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے متنازعہ معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ اب تک زیادہ تر پاکستانی تارکین وطن کو یونان سے ملک بدر کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی بین الاقوامی تنظیمیں اس معاہدے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہیں۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔