1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولیورپ

سمارٹ شہروں کی خودکار کشتیاں

12 جون 2022

ایمسٹرڈیم میں ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے اور فضائی آلودگی کم سے کم کرنے کے لیے نئے پرانے ہر طرح کے طریقوں کو آزمایا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک طریقہ شہروں میں خودکار کشتیاں چلانا بھی ہے۔

Eco India Sendung vom 04.03.2022 l smart cities
تصویر: DW

ایمسڑڈیم میں قائم اے ایم ایس انسٹیٹیوٹ، توانائی، آب و ہوا، نقل و حرکت اور خوراک کے شعبوں میں بڑھتے مسائل کو ٹیکنالوجی کے ذریعے کم یا مکمل طور پر ختم کرنے میں سرگرم ہے۔ اس انسٹیٹیوٹ کا مقصد ایمسٹرڈیم شہر کو اکیسویں صدی کے لیے موزوں بنانا ہے۔

اے ایم ایس انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے اشٹیفان فان ڈائیکے کا کہنا ہے، ''اگر آپ ان شہروں کو دیکھیں، جن میں ہم رہتے ہیں اور خاص طور سے ایمسٹرڈیم کی بات کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہم اب بھی گاڑیوں کے عادی ہیں، خاص طور پر روایتی انجن والی گاڑیوں کے۔‘‘

         

تصویر: DW

دنیا بھر میں ہر جگہ، خاص طور پر شہروں میں گاڑیوں کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ اشٹیفان فان ڈائیکے کا مزید کہنا ہے، ''اب بھی ہمیں سڑکوں پر شور، دھویں، آلودگی، گرین گیسوں کا اخراج اور ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ اگر آپ سوچیں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا میں اکثر بھیڑ کی وجہ ٹریفک کا ناقص نظام ہے۔

 بورس کوک شمالی ہالینڈ کے ایک قصبے میں اسمارٹ  ٹریفک لائٹس کی جانچ کے کام کے انچارج ہیں۔ وہ ٹریفک لائٹس جو گاڑیوں سے باتیں کرتی ہیں۔ بورس کوک کے مطابق، ''سمارٹ موبیلیٹی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ہم بنیادی ڈھانچے کو ڈجیٹیلائز کریں۔ اور سب چیزوں کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیں۔ ہم یہاں اپنے اسمارٹ ٹریفک سگنلز کے ساتھ تجربہ کرتے ہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اس طرح چوراہوں پر ٹریفک کی روانی یا کارکردگی میں 15 فیصد تک کی بہتری ہو سکتی ہے۔ ‘‘

ٹریفک لائٹس کو مزید موثر بنانے کے لیے ایک آئیڈیا یہ بھی ہے کہ گاڑیوں کو گروپس میں تقسیم کر کے ان کی پلاٹونز بنا دی جائیں۔ بورس کوک کے بقول، ''مواصلاتی رابطوں کے ذریعے پلاٹون بنائے جاتے ہیں اور اس کے بارے میں ٹریفک سگنل کو مطلع کیا جاتا ہے کہ گاڑیاں قریب آرہی ہیں۔ اس طرح ایک سے زیادہ ٹرک گرین لائٹ کراس کر سکتے ہیں، جس سے ایندھن کی بہت بچت ہوتی ہے کیونکہ ایک بڑے ٹرک کو روکنے اور دوبارہ اسٹارٹ کرنے کا عمل بہت مہنگا پڑسکتا ہے۔ ایک لیٹر ڈیزل تک خرچ ہو سکتا ہے۔‘‘

جہاں بورس کوک مستقبل کے لیے ٹریفک مینیجمنٹ سسٹم تیار کر رہے ہیں وہاں AMS ایک قدیم تصور کو اکیسویں صدی کے لیے موزوں بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

تصویر: Nodeflux

اشٹیفان فان ڈائیکے کے مطابق، ''روبوٹس یعنی آٹومیٹک کشتیاں ایک مکمل تصور ہے، یقیناً یہ ایک خودمختار نظام ہے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ ہم ایمسٹرڈیم کے پرانے انفراسٹرکچر کو کیسے زندہ کر سکتے ہیں اور ان شہروں میں بھی جن میں آبی گزرگاہیں ہیں۔ ایک ایسا نظام، جو دن میں چوبیس گھنٹے ساتوں دن آپریٹ کر سکے ۔ یعنی رات میں بھی۔ کیونکہ بہت ساری لاجسٹک سروسز اگر رات کے وقت کے لیے منتقل کر دی جائیں، تو آپ بہت ہی موثر انداز سے کام کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سمارٹ بوٹ کے ساتھ ۔‘‘

اےایم ایس انسٹی ٹیوٹ کے انجینیئر رنس ڈورن بُش کا کہنا ہے، ''یہ سب ایک ایسی کشتی کے بارے میں ہے، جس میں انٹیلی جنس موجود ہے تاکہ یہ سینسرز سے حاصل کردہ تمام ڈیٹا کو شہر کے ارد گرد محفوظ طریقے سے نیویگیشن کے لیے استعمال کیا جا سکے ۔

اشٹیفان فان ڈائیکے کے بقول، ''اسٹاک ہوم، لندن، پیرس اورسنگاپور اس نظام میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان سب شہروں میں آبی گزر گاہیں ہیں، جنہیں سامان کی منتقلی کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا۔  یا پھر ان کا بہت محدود استعمال ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ تمام شہر جو ڈیلٹا کے علاقوں میں واقع ہیں یا جہاں بہت سی آبی گزر گاہیں ہیں، وہاں کے لیے یہ نظام ایک حل ہو سکتا ہے۔‘‘

ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ اگلے تین سے پانچ سالوں میں یہ خود کار کشتیاں عام ہو جائیں گی۔

اسمارٹ ڈیوائسز مزید اسمارٹ ہو گئیں

01:03

This browser does not support the video element.

کیلیان مصطٰی (ک،م⁄ ع،ا)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں