یورپ میں پناہ گزینوں کی ریکارڈ آمد، میزبان ممالک پر ’بوجھ‘
13 نومبر 2022سیاسی پناہ سے متعلق یورپی ایجنسی ( ای یو اے اے) نے کہا ہے کہ یورپ میں پناہ کی درخواستیں گزشتہ تقریباً سات سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ اس سے قبل یہ صورتحال 2015 ء میں دیکھی گئی تھی، جب شامی جنگ کی وجہ سے 10 لاکھ سے زیادہ افراد نے پناہ کے حصول کے لیے یورپ کا رخ کیا تھا۔
یورپی یونین سے تارکین وطن کی ملک بدریوں میں پھر واضح اضافہ
اس یورپی ایجنسی نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا، ''مئی اور جولائی کے درمیان یورپی یونین پلس ممالک کو غیر معمولی طور پر زیادہ تعداد میں پناہ کی درخواستیں موصول ہونے کے بعد، اس رجحان میں تیزی آئی ہے۔‘‘
یورپ میں پناہ کے متلاشی کون ہیں؟
یورپی ایجنسی برائے سیاسی پناہ نے جولائی کے مقابلے اگست کے مہینے میں پناہ گزینوں کی درخواستوں میں 16 فیصد اضافہ رپورٹ کیا۔ ایجنسی کے اعدادو شمار کے مطابق یورپی اتحاد کے ستائیس ممالک میں، ناروے اور سوئٹزرلینڈ میں 84,500 افراد نے سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں دیں جبکہ اسی دوران یورپی ممالک میں کسی نہ کسی قسم کے عارضی تحفظ حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے مزید اڑھائی لاکھ افراد میں سے تقریباﹰ تمام کا تعلق یوکرین سے تھا۔
یونان اور ترکی کے درمیان جزیرے پر پھنسے مہاجرین کے فوری انخلا کا مطالبہ
ایجنسی کے مطابق یہ تازہ اعدادو شمار سن 2015 کے اواخر میں ریکارڈ کیے گئے اعداد و شمار کا نصف بنتے ہیں۔ ای یو اے اے کے بقول، 2022ء میں اب تک 5 ملین سے زائد پناہ اور عارضی تحفظ کی درخواستوں کا اندراج کیا جا چکا ہے۔‘‘ شام میں جنگ اب بھی جاری ہے اور افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، افغان اور شامی باشندوں کا تناسب یورپ میں پناہ لینے والی دیگر قومیتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
اگست میں پناہ کی درخواستیں دینے والوں میں سے تقریباً ایک تہائی کا تعلق شام اور افغانستان سے تھا۔ اس یورپی ایجنسی کے مطابق اگست میں ان ممالک سے تنہا سفر کرنے والے بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا، جو جولائی کے مقابلے میں تقریباً 28 فیصد زیادہ ہے۔ ایجنسی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ترکی، بھارت اور مراکش کے لوگوں کی طرف سے بھی پناہ اور تحفظ کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یورپ کی طرف ہجرت میں ایک بار پھر تیزی، روٹ تبدیل
2014 ء کے بعد اس سال اگست کے مہینے میں ترکی سے سیاسی پناہ کی اب تک کی سب سے زیادہ چھیالیس سو درخواستیں موصول ہوئیں۔
یورپی ممالک کے وسائل پر 'دباؤ‘
ایجنسی نے یورپی یونین کے ممالک پر اس حوالے سے پڑنے والے 'دباؤ‘ سے خبردار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار ''قومی وسائل پر دباؤ میں اضافے‘‘ کا اشارہ دیتے ہیں۔ جرمنی بھر کے علاقائی حکام نے کہا ہےکہ وہ زیادہ تر یوکرین سے پناہ کے متلاشیوں کی میزبانی کرتے ہوئے اپنی گنجائش کو پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ یورپی یونین کے حکام نے بارہا اپنی 2015 ءکی مہاجرین سے متعلق پالیسیوں میں غلطیوں اور ناکامیوں کا اعتراف کیا ہے، لیکن اس نظام کو ٹھیک کرنے میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔ میزبانی کی سہولیات اور حکام پر دباؤ کے علاوہ، یہ موضوع یورپی سیاست دانوں کے درمیان ایک تقسیم کا سبب بھی رہا ہے۔
2015 ء میں شامی پناہ گزینوں کی آمد نے یورپی یونین کے سب سے بڑے سیاسی بحران کو جنم دیا تھا کیونکہ اتحاد کے رکن ممالک اس بات پر لڑ رہے تھے کہ پناہ گزینوں کی ذمہ داری کس کو لینی چاہیے۔ یورپی سیاست دان اس موضوع پر جھگڑتے رہتے ہیں، کچھ ممالک پناہ گزینوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے حوالے سے خاص طور پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے دباؤ میں ہیں۔
حال ہی میں، اٹلی کی نئی دائیں بازو کی حکومت کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی جہازوں کو اپنی بندرگاہوں تک رسائی سے روکنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یورپی یونین کے دیگر ممالک کے علاوہ نیدرلینڈز اپنے میزبانوں کی تعداد میں کمی کے لیے کوشاں ہے۔