1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں کردوں سے اظہار یکجہتی، 'جنگ نہیں چاہتے‘

13 اکتوبر 2019

شمالی شام میں ترک فوجی کارروائیوں کی وجہ سے انقرہ پر تنقید کی جا رہی ہے۔ یورپی یونین ترکی پر پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ساتھ ہی متعدد یورپی شہروں میں مظاہروں کے دوران کردوں سے یکجہتی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔

Deutschland Proteste in Köln gegen der türkischen Militäroffensive in Nordsyrien
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen

عرب لیگ

عرب لیگ نے اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں کردوں کے زیر اثر علاقوں میں ترک افواج کی پیش قدمی کو' اشتعال انگیزی‘سے تعبیر کیا ہے۔ عرب لیگ نے ترکی  سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیر مشروط اور فوری طور پر ان علاقوں سے اپنی فوج کو واپس بلائے۔ اس اتحاد نے ممکنہ رد عمل کے طور پر ترکی کو خبردار کیا ہے کہ اس کے خلاف سفارتی اور اقتصادی اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ عسکری سطح پر تعاون بھی کیا جا سکتا ہے۔

تصویر: AFP/B. Alkasem

یورپی یونین

یورپ نے ترک فوجی کارروائیوں پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ برلن حکومت نے کہا ہے کہ ترکی کو مزید اسلحہ فروخت نہیں کیا جائے گا۔ اس سے قبل ہالینڈ، ناروے اور فرانس نے بھی ترکی کو اسلحے کی برآمد روکنے کا اعلان کر دیا تھا۔ یورپی یونین کی سطح پر یہ بات بھی زیر غور ہے کہ ترکی پر پابندیاں عائد کر دی جائیں۔

اگلے ہفتے جمعرات اور جمعے کو یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں یہ موضوع بھی زیر بحث آئے گا۔ یورپی یونین کے ایک کمشنر گنٹر اوئٹنگر نے کہا کہ ترک فوج کی شمالی شام میں پیش قدمی بالکل غلط اقدام ہے اور کسی طرح بھی اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔

تصویر: Imago Images/J. Große

امریکا

 امریکا کی جانب سے بھی ترکی کو پابندیوں کی دھمکی دی گئی ہے اور واشنگٹن نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اس رکن اور اپنے اتحادی ملک سے فوری طور پر اشتعال انگیزی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعے کو کوبانی شہر میں پیش آنے والے ایک واقعے کے بعد ترکی اور امریکا کے مابین کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ واشنگٹن کا الزام ہے کہ ترکی نے امریکی دستوں کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم انقرہ نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔

کردوں سے اظہار یکجہتی

ترک فوجی کارروائی کے خلاف متعدد یورپی شہروں میں مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ جرمنی میں فرینکفرٹ، کولون، ہیمبرگ اور برلن میں شہری سڑکوں پر نکلے۔ اسی طرح پیرس میں ہوئے ایک مظاہرے میں بیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ سویڈن، بلیجیم، قبرص اور سوئٹزرلینڈ میں بھی شہریوں نے جنگ کے خلاف احتجاج کیا۔

ویانا میں کیے جانے والے ایک احتجاج کے دوران سابق رکن یورپی پارلیمان میشل رائمون نے کہا،'' کردوں نے دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ میں بھرپور تعاون کیا ہے اور انہیں ہیرو قرار دیا گیا تھا۔ تاہم اب انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ بہت ہی تنگ نظری کی علامت ہے۔‘‘

ترک فوج نے بدھ نو اکتوبر کو شمالی شام کے ان علاقوں میں اپنی عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا تھا، جو کردوں کی تنظیم کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس یا 'وائی پی جی‘ کے زیر اثر ہیں۔ وائی پی جی نے ان علاقوں پر قابض اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ میں مغربی افواج کا ساتھ دیا تھا۔

مغربی ممالک کا موقف ہے کہ وائی پی جی کے خلاف کسی بھی قسم کی عسکری کارروائی سے اسلامک اسٹیٹ مضبوط ہو گی۔ ترکی وائی پی جی کو کالعدم کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) کا ایک بازو قرار دیتا ہے۔ ترکی سمیت کردستان ورکرز پارٹی کو یورپی یونین، امریکا اور جاپان سمیت کئی ممالک نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں