شمالی شام میں ترک فوجی کارروائیوں کی وجہ سے انقرہ پر تنقید کی جا رہی ہے۔ یورپی یونین ترکی پر پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ساتھ ہی متعدد یورپی شہروں میں مظاہروں کے دوران کردوں سے یکجہتی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
عرب لیگ
عرب لیگ نے اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں کردوں کے زیر اثر علاقوں میں ترک افواج کی پیش قدمی کو' اشتعال انگیزی‘سے تعبیر کیا ہے۔ عرب لیگ نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیر مشروط اور فوری طور پر ان علاقوں سے اپنی فوج کو واپس بلائے۔ اس اتحاد نے ممکنہ رد عمل کے طور پر ترکی کو خبردار کیا ہے کہ اس کے خلاف سفارتی اور اقتصادی اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ عسکری سطح پر تعاون بھی کیا جا سکتا ہے۔
یورپی یونین
یورپ نے ترک فوجی کارروائیوں پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ برلن حکومت نے کہا ہے کہ ترکی کو مزید اسلحہ فروخت نہیں کیا جائے گا۔ اس سے قبل ہالینڈ، ناروے اور فرانس نے بھی ترکی کو اسلحے کی برآمد روکنے کا اعلان کر دیا تھا۔ یورپی یونین کی سطح پر یہ بات بھی زیر غور ہے کہ ترکی پر پابندیاں عائد کر دی جائیں۔
اگلے ہفتے جمعرات اور جمعے کو یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں یہ موضوع بھی زیر بحث آئے گا۔ یورپی یونین کے ایک کمشنر گنٹر اوئٹنگر نے کہا کہ ترک فوج کی شمالی شام میں پیش قدمی بالکل غلط اقدام ہے اور کسی طرح بھی اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔
امریکا
امریکا کی جانب سے بھی ترکی کو پابندیوں کی دھمکی دی گئی ہے اور واشنگٹن نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اس رکن اور اپنے اتحادی ملک سے فوری طور پر اشتعال انگیزی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعے کو کوبانی شہر میں پیش آنے والے ایک واقعے کے بعد ترکی اور امریکا کے مابین کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ واشنگٹن کا الزام ہے کہ ترکی نے امریکی دستوں کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم انقرہ نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔
کردوں سے اظہار یکجہتی
ترک فوجی کارروائی کے خلاف متعدد یورپی شہروں میں مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ جرمنی میں فرینکفرٹ، کولون، ہیمبرگ اور برلن میں شہری سڑکوں پر نکلے۔ اسی طرح پیرس میں ہوئے ایک مظاہرے میں بیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ سویڈن، بلیجیم، قبرص اور سوئٹزرلینڈ میں بھی شہریوں نے جنگ کے خلاف احتجاج کیا۔
ویانا میں کیے جانے والے ایک احتجاج کے دوران سابق رکن یورپی پارلیمان میشل رائمون نے کہا،'' کردوں نے دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ میں بھرپور تعاون کیا ہے اور انہیں ہیرو قرار دیا گیا تھا۔ تاہم اب انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ بہت ہی تنگ نظری کی علامت ہے۔‘‘
شامی تنازعہ میں برسر پیکار قوتیں
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سن 2011ء کے عرب اسپرنگ کے بعد شام میں خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے دنیا کے مختلف حریف گروہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت شام میں کون سی قوتیں طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں؟
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شام کے مسلح گروہ
شام کے بڑے علاقے پر مختلف باغی گروپوں اور صدر بشار الاسد کے درمیان کنٹرول کے حصول کی جنگ کے باعث ملک زبردست خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس تنازعہ میں اب تک کئی غیر ملکی طاقتیں شامل ہوچکی ہیں اور کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ڈکٹیٹر
شامی افواج جسے شامی عرب افواج ، ایس ایس اے، کے نام سے جانا جاتا ہے، ملکی صدر بشار الاسد کی وفا دار ہے اور پورے ملک پر بشار الاسد کی حکومت ایک بار پھر بحال کرنے کے لیے جنگ لڑ رہی ہے۔ اس جنگ میں ان کے ساتھ نیشنل ڈیفینس فورس جیسی ملیشیا ، روس اور ایران کے عسکری ماہرین کی مشاورت شامل ہے۔
ترکی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ ہے اور اس وقت شامی جنگ میں صدر بشار الاسد کے حریف باغیوں کے گروپ کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی جنوبی ادلب اور افرین صوبوں میں باغیوں کے ہمراہ کارروائیوں میں ساتھ دے چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
مشرقی محافظ
روس بشار الاسد کا طاقتور دوست ثابت ہو رہا ہے۔ ستمبر 2015 میں روسی فضائیہ اور زمینی افواج نے باقاعدہ طور پر شامی فوج کے شانہ بشانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔ روس کی اس خانہ جنگی میں شمالیت اب تک بشار الاسد کے حق میں ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
مغربی اتحادی
امریکا نے 50 ممالک کے اتحادیوں کے ساتھ شام میں سن 2014ء سے اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت امریکا کے ایک ہزار سے زائد خصوصی دستے سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کی حمایت کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A.Brandon
مزاحمت کار
شامی کردوں اور اسلامک اسٹیٹ کے درمیان اختلافات جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ اتحاد اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کا ساتھ دے رہا ہے جو کرد اور عرب ملیشیا کا بھی اتحادی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Sik
نئے جہادی
اسلامک اسٹیٹ نے خطے میں جاری افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر سن 2014ء میں قبضہ جما لیا تھا اور وہاں خلافت قائم کرنا چاہی۔ تاہم اب روس اور امریکی فوجی مداخلت کے بعد ان کو دونوں ممالک میں شکست فاش ہوئی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
پرانے جہادی
اسلامک اسٹیٹ وہ واحدگروپ نہیں جو شام میں تباہی کا ذمہ دار ہے۔ اس تنازعہ میں الاسد حکومت اور باغیوں کے کئی گروہ شامل ہیں۔ ان میں ایک بنیادی تنظیم حیات التحریر الاشام بھی ہے جس کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں اور جس نے صوبے ادلب کے بشتر حصے کا کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Nusra Front on Twitter
8 تصاویر1 | 8
ترک فوج نے بدھ نو اکتوبر کو شمالی شام کے ان علاقوں میں اپنی عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا تھا، جو کردوں کی تنظیم کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس یا 'وائی پی جی‘ کے زیر اثر ہیں۔ وائی پی جی نے ان علاقوں پر قابض اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ میں مغربی افواج کا ساتھ دیا تھا۔
مغربی ممالک کا موقف ہے کہ وائی پی جی کے خلاف کسی بھی قسم کی عسکری کارروائی سے اسلامک اسٹیٹ مضبوط ہو گی۔ ترکی وائی پی جی کو کالعدم کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) کا ایک بازو قرار دیتا ہے۔ ترکی سمیت کردستان ورکرز پارٹی کو یورپی یونین، امریکا اور جاپان سمیت کئی ممالک نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔