یورپی ملکوں میں کورونا وائرس لاک ڈاؤن ختم ہو رہا ہے۔ لیکن سفری بندش ختم کرنے کے معاملے پر بعض ممالک اب بھی شش و پنج میں ہیں۔
اشتہار
سرحدیں کھولنے کے حوالے سے یورپی ممالک کی اپنی اپنی پالیسیاں ہے۔ ڈی ڈبلیو نے موسم گرما میں سیاحت کے تناظر میں اس کا ایک جائزہ مرتب کیا ہے: جرمنی
جرمنی نے سولہ مئی سے جن چند ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنی سرحدیں کھولی تھیں ان میں آسٹریا، فرانس اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں۔ سفر میں اس نرمی کے ساتھ سخت شرائط مشروط کی گئی تھیں۔
اب یورپی یونین نے رکن ممالک کے درمیان سرحدیں کھولنے کے لیے پندرہ جون کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ اسی دن جرمنی لکسمبرگ کے ساتھ اپنی سرحد کھول دے گا۔ اسی طرح ڈنمارک کے ساتھ بھی سرحد کھولنے پر مذاکرات طے پا چکے ہیں۔
سیاحت کے لیے پندرہ جون تک سرحدیں کھولنے کے لیے جرمن حکومت آج اہم فیصلے کرنے جارہی ہے، جس کے تحت عمومی سفری پابندیوں کی جگہ ہر ملک کے لیے انفرادی ہدایات جاری کر دی جائیں گی۔ آسٹریا
جرمنی کا ہمسایہ ملک آسٹریا بھی پندرہ جون سے سرحدی کنٹرول ختم کرنے کی یورپی یونین کی ہدایت پر عمل کرے گا۔ آسٹریا نے تیرہ مئی سے ہنگری کے ساتھ اپنی سرحد کھول دی ہے کیونکہ بارڈر کے دونوں طرف رہنے والے افراد کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ آسٹریا نے پندرہ مئی سے جرمنی کے ساتھ بھی سفری پابندی نرم کر رکھی ہے تاکہ وہاں سے آسٹریا کے الپائن پہاڑوں میں جانے والے سیاحیوں کو مشکلات نہ آئیں۔ جرمن شہری کوہ الپس کی سیاحت کے دلدادہ ہیں۔ آسٹریا کی حکومت اب سوئٹزرلینڈ کے ساتھ بھی ایسا ہی سرحدی انتظام طے کرنے جا رہی ہے۔ فرانس
شینگن ویزے پر فرانس پہنچنے والے افراد کے لیے سرحدیں کھول دی گئی ہیں۔ ایسے افراد کو قرنطینہ میں جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ فرانسیسی سرحدیں پندرہ جون تک بند ہیں لیکن اس دوران کام کرنے والے افراد کو سرحد عبور کرنے کی اجازت ہے۔
فرانس اور برطانیہ کے درمیان ایک دوسرے کے شہریوں کو قرنطینہ نہ کرنے کی طے شدہ ڈیل سے لندن حکومت پندرہ مئی سے پیچھے ہٹ گئی ہے اور اب برطانیہ پہنچنے والے فرانسیسی شہریوں کو لازمی طور پر قرنطینہ میں رہنا ہو گا۔ اٹلی
یورپ میں اٹلی وہ پہلا ملک ہے، جہاں کورونا وائرس تیزی سے پھیلا تھا۔ اٹلی نے اپنی سرحدوں کو سختی سے بند نہیں کیا تھا لیکن ہوائی اڈوں پر مسافروں کی چیکنگ انتہائی سخت کر دی تھی۔
اب تین جون سے یورپی یونین کے رکن ریاستوں کے شہریوں کو اٹلی سفر کرنے کی اجازت ہو گی۔ اسی طرح شہریوں کو اٹلی کے اندر بھی سفر کرنے کی اجازت ہو گی۔ اطالوی وزیر خارجہ نے پندرہ جون کو یورپی یونین میں سیاحت کا 'ڈی ڈے‘ قرار دیا ہے۔
اطالوی معیشت کے لیے سیاحت بہت اہم ہے اور یہ قومی مجموعی داخلی پیداوار کا دس فیصد حصہ ہے۔ اٹلی کا پانچ فیصد روزگار بھی اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ اسپین
اٹلی کی طرح ہسپانوی معیشت کا بڑا انحصار بھی سیاحت پر ہے۔ سرحدیں کھولنے کے ساتھ ہسپانوی حکومت نے باہر سے آنے والوں کے لیے چودہ دن کے لیے رضاکارانہ قرنطینہ تجویز کیا ہے۔ اسپین جولائی سے بین الاقوامی سیاحت کے لیے اپنے دروازے کھولنے کی خواہش رکھتا ہے اور اس کے لیے قرنطینہ کی پابندی ختم کر دی جائے گی۔ اسپین میں سالانہ آٹھ کروڑ سیاح گھومنے آتے ہیں اور اس کے جی ڈی پی کا بارہ فیصد انحصار سیاحتی شعبے پر ہے۔ پرتگال
یورپ میں پرتگال بھی سیاحوں کا ایک پسندیدہ ملک ہے۔ پرتگالی سیاحتی محکمے نے کہا ہے کہ ان کے ملک کی ساحلی پٹیاں اور ہوٹل وسط جون سے سیاحوں کو خیر مقدم کہنے کے لیے تیار ہوں گے۔
اسی طرح ناروے، پولینڈ، کروشیا، آئس لینڈ، یونان اور سلووینیہ نے بھی پندرہ جون سے سیاحوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ع ح، ش ج (ایلزبتھ شوماخر)
یورپ کے دس خوبصورت ترین محلات
دنیا بھر سے ہر سال کروڑوں سیاح یورپ کے وہ انتہائی خوبصورت محل دیکھنے آتے ہیں، جو اپنے دور کے طرز تعمیر کے نمائندہ اور یورپی تاریخ کی اہم علامات ہیں۔ ان محلات میں سیاحوں کو وہاں کا ماضی پوری شان و شوکت سے دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/W. Thieme
فرانس کا ویرسائیے پیلس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے نواح میں تعمیر کردہ ویرسائیے پیلس اپنے اٹھارہ سو کمروں کی وجہ سے یورپ کے سب سے بڑے محلات میں سے ایک ہے۔ اس محل کو فرانسیسی بادشاہ لُوئی چہاردہم نے 1677ء میں اپنی شاہی رہائش گاہ بنایا تھا۔ فرانس کے اس محل کو یورپ کے بہت سے بادشاہوں نے اپنے محلات کی تعمیر کے لیے مثالی نمونہ سمجھا۔
تصویر: picture-alliance/ZB/A. Engelhardt
روس کا پیٹرہوف پیلس
روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ سے مغرب کی طرف تعمیر کیے گئے اس شاندار محل کو ’روس کا ویرسائیے‘ بھی کہا جاتا ہے۔ خلیج فن لینڈ کے کنارے تعمیر کردہ اس محل کا افتتاح 1723ء میں ہوا تھا اور یہ روسی زار پیٹر اول کی گرمائی رہائش گاہ تھا۔ یہ محل اپنی متاثر کن آبی رہداریوں کی وجہ سے خصوصی شہرت رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/A. Engelhardt
ترکی کا توپکاپی پیلس
استنبول کا توپکاپی پیلس پندرہویں صدی کے وسط سے وسیع تر سلطنت عثمانیہ کی طاقت کا مرکز بن گیا تھا۔ یہ محل، جو ایک شاہی تعمیراتی کمپلیکس ہے، چار بڑے حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ وہاں ایک وقت میں پانچ ہزار تک افراد رہتے اور کام کرتے تھے، ایسے ہی جیسے ایک چھوٹا سا ’شاہی شہر‘۔
تصویر: picture-alliance/ZB/B. Settnik
برطانیہ کا ونڈسر کاسل
یہ برطانوی محل دنیا کی وہ قدیم ترین رہائش گاہ ہے جو مسلسل کسی شاہی خاندان کے زیر استعمال ہے۔ اس محل کی بنیاد 1078ء میں رکھی گئی تھی۔ ونڈسر کاسل فوجی دستوں کی قیام گاہ اور ایک جیل بھی رہا ہے۔ آج یہ محل برطانوی ملکہ کی مرکزی رہائش گاہوں میں سے ایک ہے۔ جب ملکہ محل میں موجود ہوتی ہیں، تو گول مینار پر ان کا پرچم لہرا رہا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Gerig
آسٹریا کا شوئن برُن پیلس
آسٹریا کی ملکہ ماریا ٹیریسا نے ویانا میں تعمیر کردہ شوئن برُن پیلس کو آج سے قریب تین صدی قبل یورپی شاہی خاندانوں کی زندگی کا محور بنا دیا تھا۔ یہ محل آسٹرو ہنگیریئن بادشاہت کے دور عروج کی سب سے شاندار نشانی ہے۔ اس محل کو دیکھنے کے لیے ہر سال دنیا بھر سے قریب تین ملین سیاح ویانا کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZB/W. Grubitzsch
اسپین کا ’ایل ایسکورئیال‘
ہسپانوی باشندے اس محل کو بڑے شوق سے ’دنیا کا آٹھواں عجوبہ‘ قرار دیتے ہیں۔207 میٹر طویل اور 161میٹر چوڑا یہ محل دنیا بھر میں نشاة ثانیہ کے طرز تعمیر کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ میڈرڈ کے نواح میں اس محل کی حدود میں ایک کلیسا اور اس سے متصل راہب خانہ بھی ہے۔ کلیسا کے تہہ خانے میں ماضی کے تقریباﹰ تمام ہسپانوی بادشاہ دفن ہیں۔
تصویر: picture alliance/Prisma Archivo
چیک جمہوریہ کا فراؤاَین برگ پیلس
بوہیمیا میں شوارزن برگ کے نواب کی یہ سابق رہائش گاہ چیک جمہوریہ کے سب سے مشہور اور پسندیدہ ترین محلات میں شمار ہوتی ہے۔ اس محل کی سب سے خاص بات بیلجیم میں بنائے گئے اور دیواروں پر چسپاں وہ رنگا رنگ موٹے کاغذ ہیں جو سترہویں صدی میں محل کی دیواروں کی اندرونی تزئین کے لیے تیار کیے گئے تھے اور سیاحوں کے لیے انتہائی کشش کے حامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Matheisl
جرمنی کا نوئے شوان شٹائن پیلس
باویریا کے بادشاہ لُڈوِگ دوئم کی خواہش تھی کہ شاہسواروں کے لیے ایک ایسا قلعہ تعمیر کیا جائے جو قرون وسطٰی کے طرز تعمیر کا نمونہ ہو۔ 1886ء میں اس محل کے افتتاح کے وقت تک اس بادشاہ کا تو انتقال ہو چکا تھا لیکن یہ دیومالائی محل آج بھی سیاحوں کے لیے انتہائی کشش کا حامل ہے۔ لُڈوِگ دوئم فن تعمیرات میں بہت دلچسپی رکھتے تھے اور یہ محل تھیورنگیا میں وارٹبُرگ سے متاثر ہو کر تعمیر کروایا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ZB/F. Baumgart
اٹلی کا ڈوگن پیلس
ڈوگے وینس کی تاریخی جمہوریہ کا ریاستی سربراہ تھا۔ ڈوگے کی یہ متاثر کن رہائش گاہ اس دور میں وینس کی سمندری اور تجارتی طاقت کی علامت تھی۔ وینس میں گوتھک طرز تعمیر کا یہ محل اب تک کئی مرتبہ جل چکا ہے، لیکن ہر بار اس کی تعمیر و مرمت کر دی گئی۔ اب یہ محل ایک عجائب گھر میں بدلا جا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb/M. Schrader
پرتگال کا پینا نیشنل پیلس
فن تعمیرات کے ماہرین کی رائے میں یہ محل کئی مختلف طرز ہائے تعمیر کی آمیزش کا نتیجہ ہے۔ کئی شائقین تو یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ محل انہیں ڈزنی لینڈ کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن سِنترا کے شہر میں قائم یہ محل سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ چودہویں صدی سے یہ محل پرتگال کے بادشاہوں کی گرمائی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔