کورونا وائرس کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے موضوع کو اب خبروں میں بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے۔ لیکن یورپ میں ماہرین کو تشویش ہے کہ غیر معمولی گرمی اور خشک سالی کورونا سے پیدا شدہ مسائل کو مزید گھمبیر کر سکتی ہے۔
اشتہار
یورپ میں بہار ابھی اپنے زوروں پر ہے اور آج کل موسم گرم ہے۔ صاف نیلا آسمان اور سرسبز پارکوں میں رنگ برنگے پھول کھل کھلا رہے ہیں۔ لیکن اگر کسانوں اور کاشتکاروں سے پوچھیں تو وہ پریشان ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ خوب بارش ہو، ورنہ ان کی فصل خراب ہو جائے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے جو مشکلات اور نقصانات ہوئے سو تو ہوئے، لیکن مستقبل قریب میں یورپ میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی زرعی نقصانات کا خدشہ ہے۔
مثال کے طور پہ جرمنی میں جنوری کا مہینہ قدرے گرم رہا۔ پھر فروری میں خاصی بارشیں ہوئیں۔ لیکن مارچ پھر نہایت گرم اور خشک رہا۔ مجموعی طور پر جرمنی میں اس سال اب تک ضرورت سے خاصی کم بارشیں ہوئیں ہے، جس سے کچھ حلقوں کی نظر میں حالات خشک سالی کی طرف جا سکتے ہیں۔
جرمنی میں موسم پر تحقیق کرنے والے ماہر آندریاس مارکس کے مطابق، پچھلے تین برسوں میں شمالی جرمنی سمیت پولینڈ، یوکرائن، بیلاروس، روس اور رومانیہ میں غیرمعمولی طور پر کم بارشیں ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ایکویٹر کی نسبت نارتھ پول زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔ ان کی نظر میں اس کا براہ راست اثر خطے میں موسم پر اثرانداز ہونے والی ہواؤں کے سلسلے "جیٹ اسٹریم" پر پڑا ہے۔ آندریاس کے مطابق "جیٹ اسٹریم" نے اب اپنا راستہ اور رخ بدلا ہے، جس کے باعث بارشیں کم اور خشک موسم میں اضافہ ہوا ہے۔
کووِڈ انیس کے مریضوں کو تلاش کرنے والی موبائل ایپ
01:22
ان کا کہنا ہے یورپ میں درمیانی مدت کی پیشگوئیوں کے ڈیٹا مطابق، اس بار موسم گرما پہلے سے زیادہ گرم اور خشک ہونے کا امکان ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف زراعت بلکہ انسانی صحت پر بھی پڑیں گے۔ ضعیف لوگوں کو گرمی اور حبس میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ایسے میں ان کے لیے ماسک پہن کر سانس لینا شاید اور مشکل ہوجائے۔
اسی طرح اگر خشک سالی زیادہ لمبی ہوجائے تو جنگلات میں آگ لگ سکتی ہے، جس کے بعد آس پاس کے علاقوں میں بعض لوگوں کے پھپھڑوں پر زور پڑ سکتا ہے، جس سے کورونا سے نبردآزما افراد کے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔
فی الحال یورپ کے کاشتکاروں کا فوری مسئلہ کورونا کی وجہ سے کھیتوں میں کام کرنے والوں ؤ کی عدم دستیابی ہے۔ لاک ڈاؤن اور نقل و حرکت پر پابندیوں کی وجہ سے ان عارضی مزدوروں کو مختلف ممالک کی سرحدیں بند ہونے کی وجہ سےسفر کرنے کی اجازت نہیں۔ میڈیا میں اس موضوع پر پھر بھی بات ہو رہی ہے لیکن ایسے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے دور رس نقصانات سے بظاہر سب کی توجہ اوجھل نظر آتی ہے۔
’ہميں کہيں بھول نہ جانا‘
کورونا وائرس کے بحران کے باعث کئی عالمی مسائل و تنازعات آج کل عدم توجہ کا شکار ہيں۔ موسمياتی تبديلياں، کشمير ميں بندشيں، ليبيا ميں جنگ، شام ميں شورش اور افغانستان کی صورتحال سميت دنيا کو آج بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔
تصویر: DW/ P. Vishwanathan
موسمياتی تبديلياں
زمين کے درجہ حراست ميں اضافہ، بے لگام معاشی سرگرمياں، برف پگھلنے سے سطح سمندر ميں اضافہ، فضائی آلودگی، پلاسٹک کا بے دريغ استعمال، حياتياتی تنوع ميں کمی جيسے مسائل سے زمين کو خطرات لاحق ہيں۔ سائنسدان بارہا خبردار کر چکے ہيں کہ ان عوامل کو روکنے کے ليے وقت بہت محدود ہے۔ ايک مطالعے ميں يہ بات بھی سامنے آئی کہ انسانی سرگرمياں قدرتی ماحول کی تباہی کی ذمہ دار ہيں اور نئے نئے وائرسوں اور بيماريوں کی بھی۔
تصویر: picture-alliance/AP/Imaginechina
ڈگمگاتی ہوئی افغان امن ڈيل
افغانستان ميں اٹھارہ سالہ جنگ کے خاتمے کے ليے حال ہی ميں امريکا اور طالبان کے مابين ڈيل طے ہوئی۔ البتہ کبھی قيديوں کے تبادلے پر اختلاف، کبھی مختلف افغان دھڑوں ميں عدم اتفاق تو کبھی وقفے وقفے سے حملوں کے باعث اس ڈيل کا مستقبل اب بھی غير واضح دکھائی ديتا ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ افغانستان ميں دو ہزار کے قريب ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے جنگجو بھی سرگرم ہيں، جو امن و امان کی کسی بھی اميد کو توڑنے کے ليے سرگرم ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Sayed
پاک بھارت کشيدگی اب بھی برقرار
پلوامہ حملے کے بعد سے پاکستان اور بھارت ميں کشيدگی رہی ہے۔ ان دنوں دونوں ترقی پذير ممالک کو وبا کا سامنا ہے البتہ سرحد پر صورتحال ميں اب بھی کوئی تبديلی نہيں ديکھی گئی۔ بھارتی فوج کا دعویٰ ہے کہ مارچ ميں پاکستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول پار فائرنگ کے چار سو سے زائد واقعات ريکارڈ کيے گئے۔ پاکستان نے بھی سال رواں ميں بھارت پر سات سو سے زائد مرتبہ بلا اشتعال فائرنگ کا الزام عائد کيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بے يار و مددگار کشميری عوام
کشمير ميں گزشتہ برس اگست ميں کيے گئے متنازعہ بھارتی اقدامات کے بعد سے لاک ڈاؤن نافذ تھا جبکہ موجودہ وبا ميں اس پر عملدرآمد اور بھی سخت کر ديا گيا ہے۔ بندشوں کے سبب کشميری عوام کی اقتصادی کمر ويسے ہی ٹوٹی ہوئی تھی۔ کام کاج، کاروبار ہر چيز پچھلے قريب نو ماہ سے بند پڑی ہے۔ وبا سے کشميريوں کے مسائل ميں اور زيادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
ايران کی پہلے سے تباہ حال معيشت، مزيد گراوٹ کا شکار
سن 2015 ميں طے پانے والی جوہری ڈيل سے امريکا کی يک طرفہ عليحدگی اور پابنديوں کی بحالی کے سبب ايرانی معيشت کا پہلے ہی بيڑا غرق ہو چکا تھا کہ وبا نے اسے مزيد نقصان پہنچايا۔ ايران مشرق وسطیٰ ميں کورونا کی وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ سپريم ليڈر آيت اللہ علی خامنہ ای امريکی مدد ٹھکرا چکے ہيں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اگر امريکا مدد کرنا ہی چاہتا ہے، تو پابندياں اٹھائے، جسے امريکی صدر مسترد کر چکے ہيں۔
تصویر: khabaronline
روہنگيا مہاجرين کا بحران، آج بھی حل طلب
بنگلہ ديشی حکام نے اپريل کے اوائل ميں کوکس بازار ميں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر ديا۔ اس ضلعے ميں لگ بھگ ايک ملين روہنگيا مہاجرين پناہ ليے ہوئے ہيں۔ روہنگيا مہاجرين ميانمار ميں فوج کے مبينہ تشدد سے فرار ہو کر بنگلہ ديش پہنچے تھے۔ اقوام متحدہ کئی رپورٹوں ميں ميانمار ميں کيے گئے اقدامات کا موازنہ ’نسل کشی‘ سے کر چکی ہے۔ اس معاملے پر عالمی فوجداری عدالت ميں کيس بھی جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
يمنی جنگ کے متاثرين لاکھوں
اقوام متحدہ يمن کے بحران کو موجود وقت کا ’بد ترين انسانی الميہ‘ قرار دے چکی ہے۔ پانچ برس سے زائد عرصے سے جاری يمنی جنگ ميں ايک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں جبکہ بے گھر ہونے والوں اور قحط کے خطرے سے دوچار افراد کی تعداد کئی ملين ميں ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے اپريل کے اوائل ميں دو ہفتوں کی جنگ بندی کا اعلان کيا تاہم يہ بدحالی کے خاتمے کے ليے ناکافی ہے۔
تصویر: picture alliance / Xinhua News Agency
شامی مسلح تنازعہ آج بھی جاری
شام ميں سن 2011 سے چلی آ رہی خانہ جنگی اب بھی ختم نہيں ہوئی ہے۔ ان دنوں صوبہ ادلب شامی و روسی جنگی طياروں کی بمباری کی زد ميں ہے۔ ابھی پچھلے ہی دنوں صدر بشار الاسد کی افواج پر ماضی میں ایک واقعے میں کيميائی ہتھياروں کے استعمال کا الزام بھی پھر سے لگايا گيا۔ اقوام متحدہ شامی جنگ کے تمام فريقين پر انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں کا الزام عائد کر چکی ہے۔
تصویر: AFP/O. H. Kadour
يورپ کو درپيش مہاجرين کا بحران
سن 2015 ميں مشرق وسطیٰ و شمالی افريقہ سے ايک ملين سے زائد پناہ گزينوں کی يورپ آمد کے تناظر ميں شروع ہونے والا بحران ايک طرح سے آج بھی جاری ہے۔ لاکھوں مہاجرين ترکی، لبنان، اردن اور يورپ کے مختلف ملکوں ميں مہاجر کيمپوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ ان میں سب سے برا حال يونانی جزائر پر موجود کيمپوں کا ہے، جن ميں پہلے ہی سے گنجائش سے کہيں زيادہ مہاجرين آباد تھے۔ وبا سے ان افراد کو شديد خطرات لاحق ہيں۔