رومانیہ کے کارکنوں نے بدھ تیرہ ستمبر کو بحیرہء اسود میں ڈیڑھ سو تارکین وطن کو ریسکیو کیا۔ اگست سے اب تک اس سمندری علاقے میں مہاجرین کو ریسکیو کرنے کا یہ پانچواں واقعہ ہے۔
اشتہار
مبصرین کے خدشات ہیں کہ جو تارکین وطن ترکی اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی وجہ سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یورپ پہنچنے سے قاصر ہیں، یا جو بلقان کی ریاستوں کی قومی سرحدوں کی بندش کی وجہ سے اس راستے سے مغربی یورپ پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو رہے، وہ بحیرہء اسود کو ایک نئے راستے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔
حکام کے مطابق منگل اور بدھ کی درمیانی شب رومانیہ کی مشرق میں بحیرہء اسود میں ریسکیو کیے جانے والے ان ایک سو تریپن افراد میں 53 بچے اور 51 خواتین بھی شامل ہیں، جب کہ سمندری موجوں سے لڑنے والی ان کی کشتی کی حالت بھی نہایت شکستہ تھی۔
رومانیہ کے کوسٹ گارڈز کے ترجمان کرسٹیان کیکو کے مطابق، ’’کشتی کو ریسکیو کرنے کی اس کارروائی کے وقت سمندر میں طغیانی تھی اور تین تین میٹر اونچی لہریں تھی۔ یہ افراد انتہائی خطرناک صورت حال کا شکار تھے اور خطرہ تھا کہ ان کی کشتی ڈوب جائے گی اور ساتھ ہی یہ تارکین وطن بھی سمندر کی نذر ہو جائیں گے۔‘‘
یونانی جزیرے لیسبوس کا موریا کیمپ، مہاجرین پر کیا گزر رہی ہے
لیسبوس کے یونانی جزیرے پر پھنسے ہوئے تارکین وطن کو حالات مزید خراب ہونے کی توقع ہے۔ انسانی بنیادوں پر سہولیات مہیا کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیمیں یا تو اپنا کام سمیٹ کر جانے کی تیاری میں ہیں یا پہلے ہی رخصت ہو چکی ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ایجئین میں پھنسے مہاجرین
مہاجرین کی مد میں نجی فلاحی تنظیموں کو یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ رواں برس اگست میں ختم ہو گئی تھی۔ تب سے یونانی حکومت ہی جزائر پر مقیم پناہ گزینوں کی تنہا دیکھ بھال کر رہی ہے۔ تاہم نہ تو ان مہاجرین کی منتقلی کا کوئی واضح پلان ہے اور نہ ہی اب یہاں مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات میں کوئی تسلسل رہ گیا ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
نہ یہاں نہ وہاں
موریا کا مہاجر کیمپ اور تارکین وطن کے لیے بنائے گئے دوسرے استقبالیہ مراکز میں اب مہاجرین کے نئے گروپوں کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تناؤ کی کیفیت بڑھ رہی ہےاور انفرادی سطح پر ہونے والے جھگڑے جلد ہی نسلی گروپوں کے درمیان سنجیدہ نوعیت کی لڑائی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
حفظان صحت کی سہولتیں
موریا کے باہر عارضی نوعیت کے غسل خانے کے باہر استعمال شدہ شیمپو اور پانی کی بوتلوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ موریا مہاجر کیمپ میں حفظان صحت کی سہولتوں کے فقدان کے باعث بہت سے لوگوں نے صفائی ستھرائی کے لیے دوسرے امکانات تلاش کرنے شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
فیصلے کا انتظار
اریٹیریا کے تارک وطن امان نے اپنے خیمے میں چائے یا پانی کا نہ پوچھنے پر معذرت کی ۔ وہ تین ماہ سے اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کا منتظر ہے۔ امان کا کہنا ہے کہ موریا کیمپ کے اندر کافی زیادہ مسائل ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
’ہم انسان ہیں‘
اس تصویر میں ایک افغان مہاجر موریا مہاجر کیمپ میں ابتر رہائش کی صورتحال کے خلاف احتجاج کے لیے پلے کارڈ بنا رہا ہے۔ احتجاج کرنے والے بیشتر پناہ گزین قریب ایک سال سے لیسبوس پر ہیں اور اپنی درخواستوں پر فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ معلومات کی کمی، ابتر رہائشی صورت حال اور افغانستان واپس بھیجے جانے کا خوف ان تارکین وطن کو مستقل وسوسوں میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
یونان بھی مجبور
لیسبوس کے افغان مہاجرین مجوزہ احتجاج پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے لیسبوس کے جزیرے پر سیاحوں کی آمد میں سن 2015 کی نسبت قریب 75 فیصد کم ہوئی ہے۔ یونان میں جاری اقتصادی بحران نے بھی جزیرے کے حالات پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ہر روز نئے تارکین وطن کی آمد
سن 2015 سے ہی مہاجرین پر لازم ہے کہ وہ اپنی پناہ کی درخواستوں پر حتمی فیصلے تک جزیرے پر رہیں گے۔ متعدد درخواستوں کو روکنے اور اپیل کے طویل عمل کے سبب تارکین وطن کی ایک مختصر تعداد کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
7 تصاویر1 | 7
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان تارکین وطن کو پہلے طبی معائنے کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا اور پھر امیگریشن حکام کے حوالے کر دیا گیا۔
یہ بات اہم ہے کہ یورپی یونین کی رکن ریاست رومانیہ شینگن زون میں شامل نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ رومانیہ کے ذریعے تارکین وطن نے یورپی یونین میں داخلے کی کوشش کم کم ہی کی ہے، تاہم دیگر راستوں کی بندش کے بعد یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ تارکین وطن اب اس ریاست کو بھی بہ طور راستہ استعمال کر سکتے ہیں۔
جب ترک ساحلی محافظوں نے مہاجرین کو یونان جانے سے روکا
01:17
بخاریسٹ حکومت کے خدشات ہیں کہ بحیرہء روم کے ذریعے یورپی ممالک کا رخ کرنے والے افراد کے لیے جس قدر وہ خطرناک راستہ مسدود ہوتا جا رہا ہے، تارکین وطن اسی قدر رومانیہ کے ذریعے یورپی یونین میں داخلے کی کوششوں میں تیزی لاتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ کے آغاز تک تارکین وطن کی انتہائی قلیل تعداد تھی، جو اس راستے سے یورپ پہنچی، تاہم اگست اور ستمبر کے مہینوں میں یہ تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ دیکھی جا رہی ہے اور اگست کے آغاز سے اب تک قریب پانچ سو ستر تارکین وطن کو بحیرہء اسود میں ڈوبنے سے بچایا گیا ہے۔