چار ماہ کا فارس علی ترکی کے ایک خیمے میں ٹھٹھر کر مرا، چار سالہ ساجدہ علی سمندر میں ڈوب کر جبکہ سیموئل اور اس کی ماں اسپین پہنچنے کی کوشش میں۔ یہ بچے ان ہزارہا مہاجرین میں شامل تھے، جو مہاجرت کے خوفناک سفر کی نذر ہو گئے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
اشتہار
جرمن اخبار ’ٹاگس اشپیگل‘ نے 33 ہزار دو سو ترانوے ایسے مہاجرین کی ایک فہرست جاری کی ہے، جو یورپ پہنچنے کی کوشش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس جرمن اخبار نے لکھا ہے کہ اس فہرست کے اجراء کا مقصد مہاجرین کی ابتر صورتحال کو اجاگر کرنا ہے کیونکہ اس صورتحال کی وجہ یورپی ممالک کی سخت پالیساں ہی بنی ہیں۔
بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر
01:11
This browser does not support the video element.
حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد غربت، جنگ و جدل، مسلح تنازعات اور شورش سے جان بچا کر یورپ پہنچ چکے ہیں یا اس کوشش میں ہیں۔ کچھ یورپی ممالک نے مہاجرین کے اس سیلاب کو روکنے کی خاطر اپنی قومی سرحدوں پر رکاوٹیں بھی نصب کر دی ہیں۔ اس صورتحال میں ایسے مہاجرین بھی مارے گئے، جو یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔
چار ماہ کے شیر خوار فارس علی کا تعلق شام سے تھا۔ وہ ترکی کے ایک کیمپ میں سردی کی وجہ سے انتقال کر گیا۔ اسی طرح پانچ سالہ افغان بچی ساجدہ علی سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئی۔ کانگو سے تعلق رکھنے والا سیموئل اور اس کی ماں اپنے ملک میں جاری شورش سے جان بچانا چاہتے تھے۔ اس کوشش میں اس خاتون نے ایک خستہ حال کشتی کے ذریعے اسپین پہنچنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی جان بچا سکی اور نہ ہی اپنے چھوٹے سے بچے کی۔
گزشتہ برس جنوری میں انتیس سالہ ہردی غفور اور چھتیس سالہ طلعت عبدالحمید یورپ پہنچ کر بھی اس وقت مارے گئے تھے، جب وہ شدید سردی اور برف باری میں دو دن کا پیدل سفر کر کے ترکی سے بلغاریہ پہنچے تھے۔ یہ دونوں عراقی شہری تھے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کی مدد سے مرتب کی گئی اس فہرست میں روزنامہ ’ٹاگس اشپیگل‘ نے لکھا ہے کہ کچھ مہاجرین یورپ میں واقع کیمپوں میں آتشزدگی سے ہلاک ہوئے یا پھر سڑکوں پر حادثات کے نتیجے میں بھی۔
اس فہرست میں خود کشی کے متعدد واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ زندگی سے تنگ اور ناامیدی کے شکار کچھ مہاجرین نے خود کو آگ لگا دی جبکہ کچھ نے گلے میں پھندا ڈال کر اپنی جان دے دی۔ اسی طرح کچھ مایوس مہاجرین نے اونچی عمارتوں سے کود کر خود کشی بھی کی۔ اس فہرست کے مطابق متعدد مہاجرین نسل پرستانہ یا دیگر حملوں کی نذر بھی ہو گئے۔
خطرناک سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بھی ہزاروں مہاجرین لقمہ اجل بنے، جنہیں اس فہرست میں ’نامعلوم افراد‘ قرار دیا گیا ہے۔ سمندر میں سب سے بڑا خونریز واقعہ جولائی سن دو ہزار سولہ میں رونما ہوا تھا، جب ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی دو کشتیوں کو پیش آنے والے ایک حادثے کے نتیجے میں ساڑھے پانچ سو افراد مارے گئے تھے۔ یہ کشتیاں لیبیا سے یورپ کی طرف سفر پر تھیں۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔