1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتلیبیا

یورپ کی طرف سفر: لیبیا کے صحرا سے سینکڑوں تارکین وطن گرفتار

26 نومبر 2024

لیبیا میں ایک طاقت ور ملیشیا کے مسلح ارکان نے ایک وسیع تر صحرا سے تین سو سے زائد تارکین وطن کو حراست میں لے لیا ہے۔ یہ غیر ملکی صحرا عبور کر کے لیبیا کے ساحل سے بحیرہ روم کے راستے سفر کر کے یورپی یونین پہنچنا چاہتے تھے۔

لیبیا اور تیونس کے مابین صحرائی سرحدی علاقے میں موجود تارکین وطن کا ایک گروپ
لیبیا اور تیونس کے مابین صحرائی سرحدی علاقے میں موجود تارکین وطن کا ایک گروپتصویر: Yousef Murad/AP/picture alliance

طرابلس سے منگل 26 نومبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملکی فوج نے بتایا کہ ان سینکڑوں تارکین وطن کو 'بریگیڈ 444‘ نامی اس بااثر ملیشیا کے ارکان نے ملک کے وسیع و عریض صحرائی علاقے میں سفر کے دوران گرفتار کیا، جو لیبیا کی فوج کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔

لیبیا میں انسانوں کا مطلوب ترین اسمگلر ہلاک، حکومتی اہلکار

بتایا گیا ہے کہ یہ 300 سے زائد تارکین وطن ایک بہت بڑا صحرا عبور کر کے ملکی ساحلی علاقے تک پہنچا چاہتے تھے، جہاں سے ان کا ارادہ غیر محفوظ کشتیوں کے ذریعے بحیرہ روم کے راستے یورپی یونین کی طرف سفر کرنے کا تھا، تاکہ وہاں پہنچ کر وہ اپنے لیے سماجی اور مادی طور پر بہتر زندگی کا آغاز کر سکیں۔

اٹلی کے بعد لیبیا میں بھی کشتی حادثہ، تین پاکستانی ہلاک

ایک کھچا کھچ بھری ہوئی گاڑی میں سوار تارکین وطن کا ایک گروپ لیبیا کی طرف سفر کے دوران صحارا عبور کرتے ہوئےتصویر: Joe Penney/REUTERS

بریگیڈ 444 کا بیان

بریگیڈ 444 نامی ملیشیا کی طرف سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا کہ اس کے ارکان نے ان سینکڑوں تارکین وطن کو حراست میں لے کر انہیں ملکی حکام کے حوالے کر دیا۔

شمالی افریقی ملک لیبیا کی اس طاقت ور ملیشیا نے اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر ایک پوسٹ بھی شائع کی، جس میں کہا گیا کہ اس کے ارکان اس لیے ملک کے صحرائی علاقوں میں گشت کرتے رہتے ہیں کہ انسانوں کی اسمگلنگ کی کوششوں اور ان کے لیے استعمال ہونے والے راستوں کو بند کر سکیں اور ''یہ کوششیں آئندہ بھی جاری رہیں گی۔‘‘

لیبیا کے ساحل کے قریب سمندر سے گیارہ تارکین وطن کی لاشیں برآمد

اس ملیشیا نے اپنی فیس بک پوسٹ کے ساتھ متعلقہ صحرا کی سیٹلائٹ تصاویر بھی شائع کیں اور قطاروں میں بیٹھے ہوئے ایسے سینکڑوں تارکین وطن کی تصاویر بھی، جن کے سامنے مسلح نقاب پوش عسکریت پسند کھڑے ہوئے تھے۔

وسیع و عریض صحرائی علاقے میں اکثر پیدل سفر کے دوران ایسے بہت سے تارکین وطن بھوک اور پیاس کی شدت سے ہلاک بھی ہو جاتے ہیںتصویر: MAHMUD TURKIA/AFP/Getty Images

شمالی افریقہ سے یورپ کی طرف غیر قانونی روانگی کا اہم مقام

لیبیا، جسے گزشتہ کئی برسوں سے خانہ جنگی اور داخلی انتشار کا سامنا ہے، شمالی افریقہ کی ایک ایسی ریاست ہے، جس کے ساحلی علاقے ہر سال مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ہزارہا تارکین وطن کے یورپ کی طرف سفر کا مقام آغاز ثابت ہوتے ہیں۔

یہ تارکین وطن لیبیا سے انسانوں کے اسمگلروں کی مدد سے بہت غیر محفوظ اور کھچا کھچ بھری ہوئی کشتیوں میں بحیرہ روم کے راستے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت بڑی تعداد ہر سال یورپی یونین میں داخل ہو بھی جاتی ہے لیکن پناہ کے متلاشی ایسے انسانوں کی ایک بڑی تعداد ہر سال دوران سفر کشتیاں الٹ جانے یا سمندر میں پیش آنے والے دیگر حادثات اور واقعات کے باعث ڈوب کر ہلاک بھی ہو جاتی ہے۔

بحیرہ روم میں کشتی خراب، بھوک و پیاس سے ساٹھ افراد ہلاک

لیبیا کے ساحلوں سے یورپی یونین کی طرف روانہ ہونے والے تارکین وطن میں مردوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ بیشتر واقعات میں ان تارکین وطن کا تعلق مشرق وسطیٰ یا افریقہ کے مختلف بحران زدہ یا تنازعات کے شکار ممالک سے ہوتا ہے۔

شمالی افریقی ممالک لیبیا، مراکش اور تیونس سے ایسے تارکین وطن غیر محفوظ کشتیوں میں یورپ پہنچنے کے لیے بحیرہ روم کا انتہائی خطرناک سفر شروع کرتے ہیںتصویر: DARRIN ZAMMIT LUPI/REUTERS

اس سال اب تک 38 ہزار تارکین وطن اٹلی اور مالٹا پہنچے

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق صرف اس سال اب تک ہی لیبیا سے بحیرہ روم کا بہت خطرناک اور غیر قانونی سفر کر کے یورپی یونین کے رکن ممالک اٹلی اور مالٹا پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد تقریباﹰ 38 ہزار بنتی ہے۔

لیبیا کے قريب کشتی غرقاب، 60 سے زائد تارکین وطن ڈوب گئے

شمالی افریقہ کی دو دیگر ریاستوں مراکش اور تیونس سے بھی ہر سال دسیوں ہزار تارکین وطن سمندری راستے سے جنوبی یورپی ممالک میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن مراکش اور تیونس میں حالات لیبیا جیسے نہیں ہیں۔

لیبیا میں ایسے تارکین وطن کے لیے سفر کے دوران جان کو لاحق خطرات میں ان چیلنجز کے باعث مزید اضافہ ہو جاتا ہے، جن کا سامنا انہیں وہاں خانہ جنگی، سیاسی عدم استحکام، داخلی انتشار اور مسلح ملیشیا گروپوں کے مابین لڑائی کے سبب کرنا پڑتا ہے۔

م م / ع ا (اے پی، اے ایف پی)

پناہ گزینوں کی کشتی پر فائرنگ

03:01

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں