اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کی نئی رپورٹ کے مطابق مہاجرین ایک مرتبہ پھر براستہ یونان یورپ پہنچ رہے ہیں۔ تاہم مہاجرین کی بحیرہ روم کے ذریعے لیبیا سے اٹلی آمد میں کمی ہوئی ہے۔
اشتہار
’یورپ کا رُخ کرنے والے مہاجرین اور تارکین وطن مسلسل راستے تبدیل کر رہے ہیں۔‘ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی جانب سے شائع کی جانے والی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’رواں سال جولائی سے ستمبر تک 21700 افراد لیبیا سے اٹلی پہنچے‘۔ واضح رہے گزشتہ چار سالوں میں ان تین ماہ کے دوران یورپ پہنچنے والے مہاجرن کی یہ سب سے کم تعداد ہے۔
دوسری جانب تُرکی، تیونس اور الجیریا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جب کہ بحیرہ روم سے یورپ پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین کا تعلق شام، مراکش، اور نائیجیریا سے ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے یورپین بیورو کی ڈائریکٹر پاسکال موریو کا کہنا ہے کہ ’گزشتہ چند ماہ سے یونان پہنچنے کے لیے سمندری راستے کو تقویت دی جارہی ہے تاہم اٹلی کے ساحلوں پر مہاجرین کی آمد میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ مہاجرین یورپ پہنچنے کے لیے مختلف راستوں کا استعمال کر رہے ہیں‘۔
یونان میں تارکینِ وطن کی کبھی ختم نہ ہونے والی آزمائشیں
یونان کے دوسرے بڑے شہر تھیسالونیکی کے ریلوے اسٹیشن کے قریب متروکہ ٹرین ویگنوں میں رہنے والے پناہ گزین یونان سے نکلنے کی غرض سے مال گاڑیوں میں گھسنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خطرہ مول نہ لیا تو زندگی کا کیا مزہ
نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ سالہ محمد سے جب ڈی ڈبلیو نے سوال کیا کہ چھپ چھپا کر مال گاڑیوں میں سوار ہونے کی کوشش کتنی خطرناک ہو سکتی ہے تو اُس کا جواب تھا، ’ خطرہ مول نہ لیا تو زندگی کا کیا مزہ۔‘
تصویر: DW/D. Tosidis
پیسے کب تک ساتھ دیں گے؟
الجزائر کے انور ایم اور احمد اے مال گاڑی کے ایک پرانے خالی ڈبّے میں بیٹھے اگلی مال گاڑی کا انتظار کر رہے ہیں۔ انور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ ایک جعلی پاسپورٹ 1500 یورو میں بنتا ہے اور انسانی اسمگلر پورٹ آف پترس سے اٹلی تک کے 600 یورو لیتے ہیں۔ میرے پاس صرف 25 یورو ہیں جنہیں میں سربیا کے لیے بچا کے رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D. Tosidis
حتمی منزل؟
الجزائر کا 29 سالہ مہاجر ذکی ایک متروک ٹرین ویگن کے اندر آرام کر رہا ہے۔ وہ نو ماہ قبل یونان پنہچا تھا۔ ذکی نے ایک ماہ زیتون کے ایک باغ میں کام بھی کیا۔ اُس نے چھ مرتبہ جرمنی جانے کی کوشش کی۔ اُس کی آخری کوشش کسی حد تک کامیاب ہو گئی اور اب وہ کم از کم بلقان میں تو موجود ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
ٹرین کہیں لے کر نہیں جاتی
ایک مراکشی تارکِ وطن ایک پرانی ٹرین کے اندر بیٹھا یونان سے اپنے فرار کا منصوبہ تیار کر رہا ہے۔ اس تارکِ وطن کا کہنا ہے کہ وہ تین بار یونانی مقدونیائی سرحد پر اور ایک بار پورٹ آف پترس پر پکڑا گیا جب وہ ایک ٹرک میں چھپ کر آگے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔
تصویر: DW/D. Tosidis
چھپنے کا وقت
سولہ سالہ جلوان 23 سال کے عبدالرحمن کو مال گاڑی کے نچلے حصے میں میں چھپنے میں مدد دے رہا ہے۔ یہ مال گاڑی ایک اسٹیشن پر انجنوں کی تبدیلی کے لیے رکی ہے۔ سکیورٹی گارڈز کے مطابق یہ وہ پہلی جگہ ہے جہاں سے مقدونین پولیس تلاش کا عمل شروع کرتی ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
مہاجرین کی نامعلوم منزل
چونکہ مال برادر ریل گاڑیوں کا ٹائم ٹیبل پہلے سے طے نہیں ہوتا اس لیے ان پر سوار ہونے والے تارکینِ وطن کو یہ علم نہیں ہوتا کہ ٹرین انہیں کہاں پہنچائے گی۔ مہاجرین کی شمال میں ترجیحی سرحد کے بجائے کبھی کبھی یہ ایتھنز پہنچ جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
آخری ہدایات
الجزائر سے تعلق رکھنے والا ایک تارک وطن اپنے دوست کو آخری ہدایات دے رہا کہ دھات لے جانے والی مال گاڑی میں خود کو کس طرح چھپانا ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
فرار کا راستہ
نوجوان تارکینِ وطن علاقے میں گشت پر مامور نجی سکیورٹی گارڈز سے چھپنے کے لیے ٹرین سے چھلانگ لگا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
اشیائے خورد و نوش کی فراہمی
تارکِ وطن محمد قریبی مہاجر کیمپ سے اپنے دوستوں کے لیے خوراک اور پانی لے کر جا رہا ہے جو پہلے سے ایک مال گاڑی میں چھپے ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
یونانی ریلوے کارکنوں نے بھی آنکھیں بند کر لیں
تھیسالونیکی کے ریلوے اسٹیشن پر مامور ریلوے کارکن دوپہر کے وقفے میں تاش کھیلتے ہیں۔ ایک ریلوے کارکن کا کہنا ہے،’’ ایک دن یہ تارکینِ وطن ٹرین میں چھپ کر جاتے ہیں اور اگلے ہی روز واپس آجاتے ہیں۔ گزشتہ موسمِ گرما سے یہ روز ہو رہا ہے۔ یہ خطرناک ہے لیکن اُن کو روکنے کے لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘
تصویر: DW/D. Tosidis
خطرے کا نشان
یونانی حکام نے عربی زبان میں ریلوے لائن کے اوپر سے گزرنے والی بجلی کی تاروں کے حوالے سے وارننگ سائن آویزاں کر رکھا ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایک الجیرین تارکِ وطن ٹرین پر کودنے کی کوشش میں کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔
سمندری راستے سے یونان پہنچنے والے مہاجرین میں سے 80 فیصد کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے ہے۔ ان مہاجرین میں دو تہائی خواتین اور بچے شامل ہیں۔ رواں سال زمینی اور سمندری راستے سے اسپین آنے والے مہاجرین کی تعداد میں 90 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 7700 افراد کا تعلق مراکش، آئیوری کوسٹ اور گنی سے ہے۔ زمینی راستہ اختیار کرکے یورپ پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین کا تعلق شام سے ہے۔
جب ترک ساحلی محافظوں نے مہاجرین کو یونان جانے سے روکا
01:17
چالیس ہزار مہاجرین کی دوبارہ آباد کاری
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی جانب سےگزشتہ ستمبر کے مہینے میں چالیس ہزار مہاجرین کی آبادکاری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ وہ مہاجرین ہیں جو وسطی بحیرہ روم سے متصل پندرہ مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔ اس حوالے سے پاسکال موریو کا مزید کہنا تھا کہ (یو این ایچ سی آر) نے یورپ کی طرف مہاجرت کے لیے قانونی طریقوں کو آسان بنانے کی گزارش کی گئی ہے، جس میں خا ص طور پر مہاجرین کے اہلِ خانہ کے میلاپ پر زور دیا گیا ہے۔‘