1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ کا اخلاقی اور انسانی دیوالیہ پن، تبصرہ

15 مارچ 2020

کورونا وائرس کی وجہ سے یورپی یونین مہاجرین کے بحران سے توجہ ہٹا چکی ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے لیکن یورپ میں مہاجرین کے حقوق کی طویل عرصے سے ہونے والی خلاف ورزیوں کو چھپایا جا رہا ہے۔

Griechenland Auf Schiff festgehaltene Migranten zum griechischen Festland gebracht
تصویر: picture-alliance /AA/A. Mehmet

ابھی تک ترکی اور یونان کی سرحدوں کے درمیان تقریباً بیس ہزار مہاجرین پھنسے ہوئے ہیں۔ یورپی یونین کی طرف سے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو سخت جواب دینے کی پالیسی انسانی حقوق کو پس پشت ڈال رہی ہے۔ ان بے بس مہاجرین کو حالات اور بے درد یونانی سرحدی محافظوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لیکن یہ تو حالیہ واقعات ہیں۔ ان کے علاوہ بھی یورپی یونین میں مہاجرین کی سلامتی کے بین الاقوامی حقوق کو طویل عرصے سے ایک منظم طریقے سے ختم کیا جا رہا ہے۔

یورپی یونین نے کہا ہے کہ جو مہاجرین واپس اپنے ملکوں کو جانا چاہتے ہیں، انہیں اس کے لیے ادائیگیاں کی جائیں گی۔ یورپی کمیشن کا یہ اعلان حقیقی بے بسی کا اعلان بھی ہے۔ یورپی کمیشن کی خاتون صدر ارزولا فان ڈئیر لائن یونان پہنچنے والے تنہا بچوں کے کیمپ کا دورہ کرنا چاہتی تھیں لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے وہ بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اگر وہ ترک یونان سرحد پر جاتیں تو وہاں پھنسے ہوئے بے بس مہاجرین کی حالت سے متعلق بہتر جان سکتی تھیں۔ پھر وہ ایسا بیان نہ دیتیں، جیسا کہ انہوں نے چند روز پہلے دیا تھا۔ یورپی کمیشن کی اس خاتون صدر نے یونانی سرحدی محافظوں کے فوجی ساز و سامان کی تعریف کرتے ہوئے انہیں یورپی یونین کی 'شیلڈ‘ قرار دیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں سکیورٹی اہلکاروں نے انتہائی بے دردی سے ترک سرحد پر موجود مہاجرین پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔

باربرا ویزل، برسلز

اس حوالے سے کچھ کرنے کی بجائے یورپی کمیشن کی سربراہ کا یہ بیان سامنے آیا کہ اگر کوئی مہاجر یونانی جزیرے سے اپنے ملک واپس جانا چاہتا ہے، تو اسے دو ہزار یورو ادا کیے جائیں گے۔ شاید یہ اعلان ان مہاجرین کے لیے تو ٹھیک ہے، جو مالی وجوہات کی بناء پر اپنے ملک چھوڑ کر آئے ہیں لیکن یونانی حکومت کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے ہے۔ بنگلہ دیشی، پاکستانی یا دیگر ملکوں کے مہاجرین کی تعداد ان کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

ابھی تو یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ترکی بھی ان مہاجرین کو واپس لے گا یا نہیں؟ ویسے بھی یہ مہاجرین انسانی اسمگلروں کو اس سے کہیں زیادہ رقم دے کر یونان پہنچے ہیں، جتنی رقم یورپی یونین انہیں واپس بھیجنے کے لیے ادا کرنا چاہتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ  کیا اس طریقہ کار سے یورپی یونین خود انسانی اسمگلروں کے کاروبار میں شامل ہونا چاہتی ہے؟   

یونانی سرحدی محافظ مہاجرین کی کشتیوں کو طاقت کے بل بوتے پر واپس بھیجیں یا پھر  یہ کام نام نہاد لیبیائی کوسٹ گارڈز کی مدد سے کیا جائے، اس طرح بغیر کسی قانونی چارہ جوئی کے تمام کے تمام مہاجر گروپوں کو واپس بھیجنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن یہ خلاف ورزیاں ایک عرصے سے جاری ہیں اور کوئی انہیں اہمیت دینے پر بھی تیار نہیں ہے۔

سن دو ہزار بارہ میں بھی انسانی حقوق کی بین الاقوامی عدالت نے اطالوی حکومت کے اس فیصلے کو غیرقانونی قرار دیا تھا، جس میں مہاجرین کے ایک سارے گروپ کو واپس بھیج دیا گیا تھا۔ اس وقت عدالت نے کہا تھا، ''مہاجرین کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کے حقوق ہیں۔‘‘ لیکن لگتا یوں ہے کہ یورپی ممالک اس بنیادی قانون سے نظریں چرا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ یورپ اس بے بنیاد فقرے کی جانب بڑھ رہا ہے کہ 'سیاسی بحران میں حقوق ختم‘ ہو جاتے ہیں۔

تبصرہ: باربرا ویزل، برسلز /  ا ا

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں