’یورپ کا ایش ٹرے‘ کہلانے والے ملک میں تمباکو نوشی آخر ممنوع
1 نومبر 2019
یورپی یونین کے رکن ایک ایسے ملک میں بالآخر شراب خانوں اور ریستورانوں جیسی بند جگہوں کے اندر تمباکو نوشی پر پابندی کا قانون بالآخر نافذالعمل ہو گیا ہے، جسے عرف عام میں ’یورپ کا ایش ٹرے‘ کہا جاتا ہے۔
آسٹریا کی وزیر صحت زابینے اوبرہاؤزر اور وزیر اقتصادیات رائن ہولڈ مِٹرلیہنر نو اسموکنگ پوسٹرز کے ساتھتصویر: picture-alliance/dpa/H. Punz
اشتہار
یہ عمومی ملک گیر پابندی جرمنی کے ہمسایہ ملک آسٹریا میں آج جمعہ یکم نومبر سے نافذالعمل ہو گئی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے کیے جا سکیں گے۔ اس قانون کا مقصد صحت عامہ کا تحفظ اور تمباکو نوشی نہ کرنے والے شہریوں کے حقوق کا احترام بھی ہے اور یہ بھی کہ آسٹریا کی وہ ساکھ بھی بہتر بنائی جا سکے، جس کے باعث اسے براعظم 'یورپ کا ایش ٹرے‘ کہا جاتا ہے۔
جرمنی: سگریٹ کی ڈبیا پر دِل ہِلا دینے والی تصویریں
دیگر ملکوں میں ایسا پہلے سے ہی ہے لیکن بیس مئی سے جرمنی میں بھی سگریٹ نوشوں کو سگریٹ کی ہر ڈبیا پر ہولناک تصویریں دیکھنا پڑیں گی۔ ایسی تصاویر کا مقصد سگریٹ نوشوں کو یہ باور کرانا ہے کہ یہ چیز صحت کے لیے کتنی خطرناک ہے۔
تصویر: Imago/Kyodo
صرف عبارت ہی کافی نہیں
اب تک جرمنی میں سگریٹ کی ہر ڈبیا پر ’تمباکو نوشی مہلک ہے‘ جیسی عبارتیں ہی چَھپتی تھیں۔ بیس مئی سے سگریٹ کی ہر ڈبیا کے دو تہائی حصے پر ایسی تصاویر ہیں، جن کا مقصد بقول سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ڈرگ پالیسی کے ترجمان برکہارڈ بلینرٹ کے ’نوجوان نسل کو تمباکو نوشی شروع کرنے سے روکنا ہے‘۔ یوں جرمنی نے یورپی یونین کے 2014ء کے ضابطے کو عملی شکل دے دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warmuth
ایک سال کی خصوصی مہلت
سگریٹ نوشی دانتوں کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ یہ پیغام ہے، اس طرح کی تصاویر کا۔ سگریٹ کی ڈبیا کا دو تہائی حصہ ایسی تصاویر سے ڈھکا ہونا چاہیے۔ سگریٹ اور تمباکو کی مصنوعات کی مئی 2016ء تک تصاویر کے بغیر شائع ہونے والی پیکنگز ابھی مزید ایک سال تک مختلف اسٹورز پر فروخت کی جا سکیں گی، پھر ان ہولناک تصاویر سے بچنا محال ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تمباکو نوشی کی تشہیر پر بھی پابندی
ایک نئے جرمن قانون کے تحت عوامی مقامات پر آویزاں کیے گئے بِل بورڈز اور پوسٹرز پر اور ایسے سینما گھروں کے اندر سگریٹ نوشی کی تشہیر منع ہو گی، جہاں اٹھارہ سال سے کم عمر افراد بھی فلمیں دیکھ سکتے ہیں۔ سیاستدان امید کر رہے ہیں کہ ان اقدامات کے نتیجے میں نوجوان نسل سگریٹ کے قریب بھی نہیں آئے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Steinberg
ابتدا آسٹریلیا نے کی
آسٹریلیا کے قانون ساز سگریٹ نوشی کے خلاف اقدامات میں اس سے بھی کہیں آگے چلے گئے۔ وہاں دو ہزار بارہ سے سگریٹ کی ہر ڈبیا پر بغیر کسی عبارت کے شائع کی گئی بڑی بڑی تصاویر سگریٹ نوشی سے خبردار کر رہی ہیں۔ فرانس میں ایسا 2016ء کے اواخر سے دیکھنے میں آ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/R. Pierse
سگریٹ تیار کرنے والی کمپنیاں ناراض
سگریٹ کی ہر نئی ڈبیا پر اُس کے مخصوص برانڈ کا نام اب نچلے حصے میں چھوٹے سائز ہی میں درج ہو گا۔ پھر برانڈ کوئی بھی ہو، ہر پیکٹ کا رنگ بھی ایک جیسا ہے۔ اب جرمنی میں تصویر سگریٹ کی ڈبیا کے دو تہائی حصے کو ڈھکتی ہے لیکن فرانس میں اس سے بھی زیادہ حصے کو ڈھانپے گی۔ کچھ فرانسیسی کمپنیوں نے اس طرح کے ضوابط کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: Imago/Kyodo
’سگریٹ نوشی بتدریج کم ہو جائے گی‘
سگریٹ کی ڈبیا پر تصاویر کے مخالف حلقوں کے خیال میں یہ تصاویر لوگوں کو سگریٹ نوشی سے نہیں روک پائیں گی۔ حامیوں کے خیال میں پہلے سگریٹ نوشی نہ کرنے والے سگریٹ کا پیکٹ اٹھانے سے جھجکیں گے۔ ماہر نفسیات کرسٹوف کروئگر کے مطابق ’جب سگریٹ نوشی کو خوبصورت پیکنگز اور اشتہارات میں دکھائی جانے والی اچھی چیزوں کے ساتھ مربوط نہیں کیا جائے گا تو رفتہ رفتہ سگریٹ نوشی کم ہوتی جائے گی‘۔
تصویر: picture alliance/dpa
6 تصاویر1 | 6
ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں واقع اس وفاقی جموریہ میں اب جو نیا قانون مؤثر ہو گیا ہے، اس کی منظوری ملکی پارلیمان نے اس سال جولائی میں دی تھی۔
اس طرح آسٹریا بھی تمباکو نوشی سے متعلق اپنے قوانین کی سطح پر زیادہ تر یورپی ممالک کا ہم پلہ ہو گیا ہے۔
اس قانون کے تحت جو تمباکو نوش شہری گاہکوں کے طور پر آئندہ کسی بھی شراب خانے یا ریستوراں کے ان ڈور حصوں میں تمباکو نوشی کے مرتکب پائے گئے، انہیں ایک ہزار یورو (1115 امریکی ڈالر) جرمانہ کیا جا سکے گا۔
اس کے علاوہ ایسے عوامی کاروباری اداروں کے وہ مالکان، جو اپنے ہاں مہمانوں کو سگریٹ نوشی کی اجازت دیں گے، انہیں دو ہزار یورو تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔
یہی نہیں بلکہ اگر ایسے ریستورانوں اور بارز کے مالکان نے یہ جرم بار بار کیا، تو انہیں 10 ہزار یورو تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اس نئی ملک گیر پابندی کا اطلاق صرف سگریٹ یا سگار پینے پر ہی نہیں ہو گا بلکہ یہ نیا اور بہت سخت قرار دیا جانے والا قانون شیشے اور الیکٹرانک یا ای سگریٹس پر بھی لاگو ہو گا۔
ای سگریٹ: اچھا متبادل یا مضر صحت؟
ای سگریٹ خوب دھواں چھوڑتی ہے لیکن اس کی کوئی بُو نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اصل سگریٹ کا ایک زیادہ صحت بخش متبادل ہے؟ آئیے، اس گیلری میں اس دھواں چھوڑتی مشین کا ذرا غور سے جائزہ لیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایک پُر کشش گناہ؟
اکتیس مئی 2014ء، انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن۔ اس روز کئی لوگ تمباکو نوشی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کا عزم کریں گے۔ اس سلسلے میں بہت سے لوگ ای سگریٹ کی مدد لیتے ہیں، جن کی فروخت دنیا بھر میں بڑھ رہی ہے۔ ای سگریٹ بغیر کسی احساسِ جرم کے، بغیر بُو دار دھواں چھوڑے اور بغیر اپنی صحت کو خطرے میں ڈالے پی جا سکتی ہے، کم از کم ای سگریٹ بنانے والے یہی دعویٰ کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ای سگریٹ کیسے کام کرتی ہے؟
ای سگریٹ ایک ری چارج ایبل بیٹری (مثلاً USB کنکشن کی مدد سے کمپیوٹر پر بھی چارج ہونے والی)، بخارات بنانے والے ایک آلے اور ایک چھوٹی سی ڈبیا پر مشتمل ہوتی ہے، جس میں اپنی پسند کا نکوٹین کا حامل کوئی بھی خوشبو دار محلول رکھا جا سکتا ہے۔ جب تمباکو نوش اس سگریٹ کو منہ لگا کر سانس اندر کو کھینچتا ہے تو محلول سے بخارات اٹھتے ہیں اور وہ اس دھوئیں کو ای سگریٹ کے ساتھ منہ لگا کر اپنے اندر کھینچ لیتا ہے۔
ایک نہیں، کئی ذائقے
ای سگریٹ میں مختلف ذائقے ہوتے ہیں۔ تمباکو کی خوشبو والے محلول سب سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں، جن کے بعد مختلف پھلوں مثلاً اسٹرابری اور سیب کے ذائقے والے مائع جات کی باری آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف شدت کی نکوٹین کے حامل محلول بھی دستیاب ہوتے ہیں اور نکوٹین سے پاک اور بغیر ذائقے والے مائع جات بھی۔
تصویر: picture alliance/Fredrik von Erichsen
ہر طرح کے تمباکو نوش کے مزاج کے مطابق
بازار میں نہ صرف مختلف ذائقوں والے ای سگریٹ دستیاب ہیں بلکہ اگر کوئی عام طور پر سگریٹ نوشی نہ کرتا ہو تو وہ ای سگار یا ای پائپ سے بھی لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ کبھی کبھار سگریٹ نوشی کرنے والے کے لیے بھی ای سگریٹ دستیاب ہے، جو اپنی تقریباً دَس یورو کی قیمت کے ساتھ مقابلتاً مہنگی بھی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ای سگریٹ میں کوئی چیز جلتی نہیں
تمباکو نوشی کی تعریف یہ ہے کہ اس میں ’پودوں کے جلتے ہوئے حصوں کے دھوئیں کو جانتے بوجھتے سانس کے ذریعے منہ میں کھینچا اور پھر سانس کی نالیوں اور پھیپھڑوں تک لے جایا جاتا ہے‘۔ ای سگریٹ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اس میں کچھ بھی جلتا نہیں ہے، نہ تمباکو اور نہ ہی کوئی اور پودا۔ کم ا ز کم سابق تمباکو نوشوں کی صحت کے لیے تو اس میں فائدہ نظر آتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ای سگریٹ کب تک برداشت ہو سکے گی؟
جو لوگ تمباکو نوشی نہیں کرتے، وہ تمباکو کے دھوئیں کو اپنے آس پاس بھی نہیں دیکھنا چاہتے اور یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں دفاتر اور ریستورانوں وغیرہ میں غیر تمباکو نوشوں کے تحفظ کے لیے تمباکو نوشی پر پابندی عائد ہو چکی ہے۔ کیا ای سگریٹ پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی؟ ابھی تک تو ایسا نہیں ہے لیکن اس موضوع پر بحث بدستور جاری و ساری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ای سگریٹ میں استعمال ہونے والے مشکوک مادے
ای سگریٹ میں کون کونسے مادے استعمال ہوتے ہیں، ایک عام آدمی کے لیے یہ بات سمجھنا آسان نہیں ہے۔ مثلاً ای سگریٹ میں پروپائلین گلائیکول نامی بے بُو، بے رنگ اور نمی کو جذب کرنے والا مادہ بھی استعمال ہوتا ہے، جو مصنوعی دھند بنانے والی مشینوں میں استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ جلد پر لگانے والی کریموں اور ٹوتھ پیسٹ میں موجود ہوتا ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے استعمال کے طویل المدتی اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مختلف آراء
اگر تو معاملہ یہ ہے کہ آیا انسان کو ای سگریٹ نوش کرنی چاہیے یا پھر اصل تمباکو والی سگریٹ ہی نوش کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے تو پھر تو ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ ای سگریٹ بہرحال صحت کے لیے کم خطرناک ہے۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سرے سے ہی سگریٹ نوشی ترک کر دینا زیادہ بہتر ہے کیونکہ ای سگریٹ کے مضرِ صحت ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے ابھی طویل المدتی جائزے سامنے نہیں آئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
آسٹریا تاحال 'یورپ کا ایش ٹرے‘ کیوں؟
آسٹریا کو 'یورپ کا ایش ٹرے‘ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس کی کُل آبادی صرف 8.8 ملین ہے لیکن اس میں تمباکو نوش افراد کا تناسب 25 فیصد بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چوٹھا آسٹرین شہری تمباکو نوش ہے۔
یورپی سطح پر یہ شرح اس لیے بہت زیادہ ہے کہ اب تک 28 ممالک پر مشتمل پوری یورپی یونین میں تمباکو نوش شہریوں کی اجتماعی اوسط صرف 18 فیصد ہے مگر آسٹریا میں قومی سطح پر یہ اوسط یورپی اوسط کا تقریباﹰ 150 فیصد بنتی ہے۔
یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں سے 17 میں اب تک تمباکو نوشی کے خلاف وسیع تر اور بہت جامع قوانین نافذ کیے جا چکے ہیں۔ آسٹریا میں اب جو نیا 'نو اسموکنگ‘ قانون نافذ ہو گیا ہے، اس کے لیے وفاقی پارلیمان میں سیاسی بحث مجموعی طور پر دس سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہی۔
م م / ا ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
پردہ اسکرین پر مقبول ترین اسموکرز
تمباکو کا کثیف دھواں اڑانا کسی زمانے میں ہالی وڈ کے ہیروز کا ایک منفرد انداز ہوا کرتا تھا۔ یہ ایکٹرز اپنی اداکاری کو مؤثر اور جاندار بنانے کے لیے اس کا سہارا لیا کرتے تھے۔ کچھ اداکار تو صرف اس وجہ سے ہی مقبول ہوئے۔
تصویر: picture alliance/KPA
مختلف انداز کا ہیرو
جیمز ڈین نے اپنی مخصوص اداکاری سے ایک نسل کو متاثر کیا۔ انہوں نے 1950ء کے پرانے زمانے کے انداز کو اپنے باغیایانہ طرز اداکاری سے تبدیل کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سگریٹ کا سہارا انتہائی مؤثر انداز میں لیا۔ وہ ہالی وڈ کے پہلے ’Bad Boy‘ بن کر ابھرے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
پرسکون انداز
سگریٹ نوشی کرتے ہوئے ہمفری بوگارٹ سے زیادہ پرسکون شاید ہی کوئی اور ہیرو لگا ہو۔ پچاس کی دہائی میں انہوں نے اپنی اداکاری کو لوہا منوا لیا تھا۔ ان کے سگریٹ پینے کا انداز اتنا مقبول ہوا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اگر وہ اپنے کردار کو نبھاتے ہوئے سگریٹ نوشی کا سہارا نہ لیں تو وہ کردار نہیں نبھا سکیں گے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
اسٹائلش خاتون
ساٹھ کی دہائی میں ہالی وڈ کی فلموں میں خواتین کا ایک منفرد اسٹائل متعارف کرایا گیا، جس میں پیروئنز خوبصورت دیدہ زیب لباس میں انتہائی مہنگے سگریٹ پیتے نظر آئیں۔ اس زمانے کی دلکش اداکارہ آؤڈری ہپبرن نے فیشن ایبل اپر کلاس سوسائٹی میں اسموکنگ کو متعارف کرانے میں اہم کردار کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چین اسموکر
اخبار پڑھتے، گاڑی چلاتے، فلرٹ کرتے یا سیریل کلر کی تلاش کرتے ہوئے۔ جو کچھ بھی ہو لیکن معروف اداکار ژاں پال بیلونڈو سگریٹ کے بغیر نظر ہی نہیں آتے تھے۔ وہ چین اسموکر تھے اور انہوں نے اداکاری کے دوران بھی تمباکو نوشی کا اپنا انداز بنا رکھا تھا۔
تصویر: picture alliance/KPA
باوقار اور جاذب نظر ہیرو
’جیمز بونڈ‘ ہالی وڈ کی ایک تاریخ سیریز ثابت ہوئی ہے۔ شین کورنی نے بھی 007 کا کردار نبھایا تھا۔ دیگر ہیروز کی طرح انہوں نے بھی اس کردار میں جان ڈالنے کے لیے تمباکو نوشی کا سہارا لیا۔ 2002ء میں امریکا میں یہ بحث شروع ہوئی تھی کہ آیا فلموں میں کرداروں کو سگریٹ نوشی کرتے دیکھایا جانا چاہیے یا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Images
نہ تھکنے والا ذہین انسان
شرلاک ہومز 1939 سے کئی اہم سنسنی خیز اور پراسرار کیس سلجھا چکا ہے۔ اس فلم کے مرکزی کردار بھی تمباکو کے دھوئیں میں مزید پرسرار ہوتے رہے ہیں۔ راجر مور نے بھی شرلاک ہومز کا کردار نبھایا ہے۔ ناقدین کے بقول اس کردار میں ان کا تمباکو پینا سنسنی خیزی کو بڑھانے میں ایک انتہائی اہم جزو ثابت ہوا۔
تصویر: picture-alliance/KPA
جذبات برانگخیتہ کرنے والی ’اسکول گرل‘
اولیویا نیوٹن جان کا انداز نرالا تھا۔ میوزیکل رومنٹیک کامیڈی فلم ’گریس‘ میں انہوں نے سگریٹ منہ میں لیے ایک انوکھا انداز متعارف کرایا۔ ناقدین کے مطابق اسی کردار نے انہیں امر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/Mary Evans Picture Library/R. Gran
اداکاری ایسی، جو حقیقی معلوم ہو
’پلپ فکشن‘ نامی فلم میں اوما تھورمن نے منشیات کی عادی ایک خاتون کا کردار نبھایا تھا۔ ایک مجرم کی اہلیہ کے کردار میں انہوں نے ناقدین سے بھی داد بٹوری تھی۔ نشے کی لت میں مبتلا ہونے کی اداکاری میں انہوں نے جس انداز میں سگریٹ پیا، وہ ہالی وڈ میں اب بھی سراہا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/KPA
دھوئیں میں اٹی زندگی
روساریو ڈاؤسن نے ’Sin City‘ میں اپنی اداکاری پر کافی داد وصول کی۔ اس فلم کے پرسرار ماحول میں انہوں نے تمباکو کے دھوئیں کا انتہائی عمدگی سے استعمال کیا۔ ناقدین کے مطابق اگر اس فلم میں وہ مسلسل سگریٹ نہ پیتیں تو شائد یہ فلم اپنا اثر کھو دیتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Splendid Film/Sony
نیا دور لیکن یادیں پرانی
Mad Man نے ساٹھ کی دہائی کی عکاسی کو دوبارہ یاد کرا دیا ہے۔ اُس دور میں فلمی کرداروں کا سگریٹ پینا ایک معمول کی بات تھا۔ تاہم اب کیلی فورنیا لیبر قوانین کے مطابق اسٹوڈیوز میں صرف ’ہربل سگریٹ‘ ہی پیے جا سکتے ہیں۔