جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے خلاف لگائے گئے ان الزامات کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے ترکی سے معاہدہ طے کرتے وقت ترک صدر رجب طیب ایردوآن پر بہت زیادہ انحصار کیا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وفاقی چانسلر انگیلا میرکل نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ انہوں نے ترکی کے ساتھ معاہدے کرتے وقت ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے۔ یورپی عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ترکی کے ساتھ معاہدہ کرنے کے نتیجے میں ایردوآن کو اپنی مرضی کے فیصلے کرنے میں مدد حاصل ہو رہی ہے۔
آج بارہ مئی بروز جمعرات برلن میں ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے میرکل کا کہنا تھا، ’’یقینی طور پر سب سے زیادہ تنقید اس بات پر کی جا رہی ہے کہ ترکی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے باعث ترکی پر بہت زیادہ انحصار ہو چکا ہے۔‘‘
میرکل کا کہنا تھا کہ یورپ کو ان وجوہات پر توجہ دینا ہو گی جن کے باعث لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر یورپ کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد روکنے کے لیے یہ بہت اہم امر ہے کہ ان وجوہات کا خاتمہ کیا جائے تاکہ لوگ اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یورپ کا رخ نہ کریں۔
’ویسٹ جرمن ریڈیو‘ کے پروگرام ’یورپین فورم‘ میں بات کرتے ہوئے جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ ہجرت کی وجوہات ختم کرنے کے لیے دوسرے ممالک کی ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوتی ہے جسے ’آپ دوسرے ممالک پر انحصار کرنا‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ میرکل کا مزید کہنا تھا کہ یورپ یہ کہہ کر آنکھیں نہیں بند کر سکتا کہ ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ہماری کوئی دلچسپی نہیں ہے خاص طور پر جب ایسا کرنا ہماری اپنی اقدار کے خلاف ہو۔
یورپ اور ترکی کے مابین طے پانے والے اس معاہدے پر عمل درآمد کے بعد بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ ڈی پی اے کے مطابق اس دوران صرف 350 تارکین وطن نے غیر قانونی سمندری راستہ اختیار کیا جن میں سے سات ہلاک ہوئے۔ اس کے مقابلے میں گزشتہ برس کے دوران ہزاروں تارکین وطن سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔
جرمن چانسلر نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’صرف انسانوں کو ڈوبنے سے بچانا اور تارکین وطن کو انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں لٹنے سے بچانا ہی اس معاہدے کی اہمیت ثابت کر دیتا ہے۔‘‘
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ترکی اگر یورپی یونین کی بیرونی سرحدیں محفوظ بنانے میں مدد کر رہا ہے تو یورپ کو بھی اس کے بدلے تارکین وطن کا بوجھ بانٹنا پڑے گا۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔