یورپ کی جانب غیر قانونی مہاجرت پانچ برسوں میں کم ترین سطح پر
15 نومبر 2018
یورپی سرحدی ایجنسی فرنٹیکس کے مطابق سن 2013 سے لے کر اب تک یورپ کی جانب غیر قانونی مہاجرت میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود مہاجرین کی آمد کے حوالے سے یورپی یونین ممالک میں بحث اور تنازعے کی صورت حال برقرار ہے۔
اشتہار
فرنٹیکس نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت اس برس یورپ آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے جو پچھلے پانچ سالوں میں سب سے کم ہے۔
یورپی بارڈر ایجنسی نے اس برس کے پہلے دس ماہ میں ایک لاکھ اٹھارہ ہزار نو سو غیر قانونی بارڈر کراسنگ کے کیس درج کیے جبکہ سن 2017 میں یہ شرح اسی مدت کے دوران تیس فیصد زائد تھی۔
ایجنسی نے اس رحجان کا سبب اٹلی اور لیبیا کے درمیان سمندری راستے سے سفر کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں انتہائی کمی بتایا ہے۔ بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں گزشتہ برس کی نسبت ستاسی فیصد گراوٹ آئی ہے۔
خیال رہے کہ اٹلی کے عوامیت پسند وزیر داخلہ ماتیو سالوینی نے بحیرہ روم میں ڈوبنے سے بچائے جانے والے مہاجرین کے امدادی جہازوں کے اطالوی بندرگاہوں پر لنگرانداز ہونے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
ایک طرف جہاں اٹلی کے مہاجرت کے حوالے سے سخت موقف کے سبب بحیرہ روم سے ہونے والی غیر قانونی مہاجرت کم ہوئی ہے وہیں فرنٹیکس کے مطابق اسی سمندر سے اسپین جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
اکتوبر کے مہینے میں یورپ کی جانب قریب ساٹھ فیصد غیر قانونی مہاجرت مراکش سے اسپین جانے والے سمندری روٹ کے ذریعے ہوئی۔ مغربی بحیرہ روم کے اس روٹ پر اکتوبر کے ماہ میں تقریباﹰ نو ہزار چار سو پناہ گزینوں نے سفر کیا جو گزشتہ سال اسی دورانیے کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہے۔
یورپی یونین ریاستوں میں مہاجرین کی آمد میں مستحکم کمی کے باوجود ان ممالک میں اس بات پر تنازعہ چل رہا ہے کہ بلاک کو مہاجرت کے مسئلے سے کیسے نمٹنا چاہیے؟
ص ح / ا ا/ نیوز ایجنسیز
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔