’یورپ کی جانب ہجرت کا قانونی راستہ فراہم کیا جائے‘
شمشیر حیدر25 اپریل 2016
اردن کی ملکہ رانیا نے مطالبہ کیا ہے کہ تارکین وطن کو یورپ میں پناہ دینے کے لیے ’قانونی‘ راستہ فراہم کیا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپ اور ترکی کے مابین طے پانے والا معاہدہ انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
اشتہار
اردن کی ملکہ رانیا یونانی جزیرے لیسبوس کے دورے پر ہیں جہاں انہوں نے ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے بعد سے وہاں پھنسے پناہ گزینوں سے ملاقات کی۔
اس متنازعہ معاہدے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ملکہ رانیا کا کہنا تھا، ’’سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد اب زیادہ تر مہاجرین پہلے سے بھی زیادہ خطرناک راستے اختیار کرتے ہوئے یورپ پہچنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
بیس مارچ کو طے پانے والے اس متنازعہ معاہدے پر اپریل کے آغاز میں عمل درآمد شروع ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں اب تک سینکڑوں غیر قانونی مہاجرین کو یونان سے ملک بدر کر کے واپس ترکی بھیجا جا چکا ہے۔ اب تک جن تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا ہے ان میں سے اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ترک حکام کے مطابق پاکستان، افغانستان اور عراق جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو ان کے آبائی وطنوں کی جانب واپس بھیج دیا جائے گا۔
ملکہ رانیا کا کہنا تھا، ’’یہ امر نہایت ضروری ہے کہ یورپ اور دیگر محفوظ علاقوں کی جانب ہجرت کرنے والے لوگوں کو قانونی اور محفوظ رستے فراہم کیے جائیں۔‘‘
اڈومینی کے ابتر حالات میں مہاجرین کی تشویش
02:10
اردن کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں شامی مہاجرین کی بہت بڑی تعداد پناہ لیے ہوئے ہے۔ اس عرب ملک میں شامی مہاجرین کی تعداد مجمموعی آبادی کا دس فیصد بنتی ہے۔ مجموعی طور پر ساڑھے چھ لاکھ سے زائد شامی شہریوں نے اردن میں پناہ لے رکھی ہے۔
اس کے برعکس یورپی ممالک نے صرف ایک لاکھ 30 ہزار شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کا اعلان کر رکھا ہے جن میں سے اب تک صرف 67 ہزار شامیوں کو ہی یورپ منتقل کیا گیا ہے۔ یہ تعداد شامی مہاجرین کی مجموعی تعداد کا صرف 1.39 فیصد بنتی ہی۔
اردن کی ملکہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت ’ایک غیر معمولی صورت حال درپیش ہے جس کا حل بھی غیر معمولی ہونا چاہیے۔ یونان مہاجرین کی آخری منزل نہیں ہو سکتا‘۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین اور دیگر امدادی اداروں کو بھی مزید مدد فراہم کی جائے تا کہ وہ یونانی کیموں میں رہنے والے مہاجرین کو خوراک اور دیگر اشیا فراہم کر سکیں۔
ملکہ رانیا فیصل یاسین کویت میں پیدا ہونے والی فلسطینی ہیں جنہوں نے مصر میں قائم امریکی یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملکہ رانیا کو بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق، تعلیم، صحت اور حقوق نسواں کے لیے کام کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔