1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ کی سب سے بڑی معیشت، اعداد و شمار کے آئینے میں

عاطف بلوچ10 ستمبر 2013

جرمنی میں بائیس ستمبر کو منعقد ہو رہے عام انتخابات میں خاتون سیاستدان انگیلا میرکل تیسری مرتبہ چانسلر شپ کے لیے امیدوار ہیں۔ جرمنی نہ صرف یورپ بلکہ عالمی سطح پر بھی اقتصادی حوالے سے انتہائی اہم ملک ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی امریکا، چین اور جاپان کے بعد عالمی سطح پر چوتھا سب سے بڑا ’اکنامک پاور ہاؤس‘ ہے۔

جغرافیہ

وفاقی جمہوریہ جرمنی کے شمال میں ڈنمارک، مغرب میں فرانس، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ جبکہ جنوب میں سوئٹزر لینڈ اور آسٹریا اور مشرق میں چیک جمہوریہ اور پولینڈ جیسے اہم ممالک واقع ہیں۔ جرمنی کا مجموعی رقبہ تین لاکھ 57 ہزار 50 مربع کلو میٹر بنتا ہے۔ اس ملک کے شمال میں زمینی علاقے ہیں تو جنوب میں ایلپس کا پہاڑی سلسلہ۔ جرمنی کے بڑے دریاؤں میں رائن، ایلبے اور ڈینیوب شامل ہیں۔

دارالحکومت اور آبادی

جرمنی کا دارالحکومت برلن ہے۔ یورپی یونین کے رکن ملکوں میں لندن کے بعد دوسرا سب سے بڑا شہر برلن ہے، جس کی آبادی 3.4 ملین ہے۔

یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں 2012ء کے اواخر تک کے تخمینوں کے مطابق 80.5 ملین نفوس آباد ہیں۔ جرمنی کی کل آبادی میں 6.6 ملین تارکین وطن بھی شامل ہیں۔ جرمنی میں آباد تارکین وطن میں سب سے زیادہ تعداد ترک نسل کے باشندوں کی ہے، جو 3 ملین بنتی ہے۔ جرمنی میں کم تر شرح پیدائش کی وجہ سے مجموعی آبادی نہ صرف کم ہو رہی ہے بلکہ بزرگ شہریوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

مذہب اور تاریخ

جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: Johannes Eidele/AFP/Getty Images

مسیحیت جرمنی کا ایک اہم مذہب ہے۔ مجموعی آبادی کا ایک تہائی حصہ کیتھولک ہے اور آبادی کا اتنا ہی بڑا حصہ پروٹسٹنٹ مذہبی عقائد کا حامل ہے۔ جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد قریب چار ملین ہے جبکہ یہودی آبادی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

’آہنی چانسلر‘ کے نام سے مشہور اوٹو فان بسمارک نے 1871ء میں جرمن ایمپائر کی بنیاد رکھی تھی۔ بعدازاں پہلی عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست فاش کے بعد اسے قیام امن کے لیے انتہائی سخت شرائط پر عمل پیرا ہونا پڑا تھا۔ یہی ہزیمت آمیز شرائط 1933ء میں اڈولف ہٹلر کو اقتدار میں لانے کی اہم وجہ بنی تھیں۔

ہٹلر نے اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف یہودیوں کا قتل عام کیا بلکہ دوسری عالمی جنگ کا ذمہ دار بھی اس نازی آمر کو قرار دیا جاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران کروڑوں افراد مارے گئے اور اس خونریز جنگ کے اختتام پر جرمنی اور برلن کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، جہاں اتحادی طاقتوں برطانیہ، فرانس، سابقہ سوویت یونین اور امریکا نے کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

یہی منقسم جرمنی دو ایٹمی سپر طاقتوں کے مابین سرد جنگ کا ایک اہم محاذ بھی بن گیا تھا۔ منقسم برلن میں بعد میں تعمیر کی گئی دیوار کے اطراف دونوں سپر پاورز کے ٹینک ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے کر دیے گئے تھے۔ تاہم 1989ء میں دیوار برلن کے انہدام کے بعد 1990ء میں جرمنی کا دوبارہ اتحاد ممکن ہو گیا تھا۔

سیاسی ادارے

جرمن پارلیمان کے دو ایوان ہیں، بنڈس ٹاگ یعنی ایوان زیریں اور بنڈس راٹ یعنی ایوان بالا، جہاں سولہ وفاقی صوبوں کو نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔ جرمنی میں سربراہ حکومت یا چانسلر کا عہدہ اس وقت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی قدامت پسند سیاستدان انگیلا میرکل کے پاس ہے۔ وہ 2005ء سے اس عہدے پر فائز ہیں، 2009ء میں انہیں ایک مرتبہ پھر چانسلر منتخب کر لیا گیا تھا۔

جرمنی میں سربراہ مملکت یعنی صدر کا عہدہ علامتی ہوتا ہے۔ موجودہ وفاقی صدر یوآخم گاؤک ہیں۔ 2012ء میں وفاقی جرمن صدر کا عہدہ سنبھالنے والے گاؤک سابقہ مشرقی جرمنی میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن تھے۔

جرمنی 1999ء میں قائم کیے جانے والے یورپی اقتصادی اور مالیاتی اتحاد کے بانی ملکوں میں سے ہے جبکہ اس کا شمار ان گیارہ ممالک میں بھی ہوتا ہے، جنہوں نے یکم جنوری 2002ء کو یورپی مشترکہ کرنسی یورو اپنا لی تھی۔

معیشت اور مسلح افواج

ہٹلر نے اقتدار میں آنے کے بعد یہودیوں کا قتل عام کیاتصویر: Hulton Archive/Getty Images

یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی برآمدات کے حوالے سے چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ ان برآمدات میں زیادہ تر گاڑیاں، مشینری اور کیمیکلز وغیرہ شامل ہیں۔ جرمن شہر فرینکفرٹ کو ملک کی اقتصادی شہ رگ قرار دیا جاتا ہے۔

سال 2012ء میں جرمنی کی قومی مجموعی پیداوار 2.644 ٹریلین یورو کے برابر رہی تھی۔ جولائی 2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق تب جرمنی میں بے روزگاری کی شرح 6.8 فیصد تھی۔

2012ء میں وزارت دفاع کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق وفاقی جرمن افواج سے دو لاکھ اہلکار منسلک ہیں۔ ملکی آئین کے مطابق یہ افواج صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ برلن حکومت کے منصوبوں کے مطابق آئندہ کچھ برسوں میں ملکی افواج میں کمی کرتے ہوئے یہ مجموعی تعداد ایک لاکھ پچاسی ہزار کر دی جائے گی۔ 2011ء میں ایک قانون کے تحت فوج میں لازمی سروس کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں