کورونا کی وبا کے دوران یورپ کی طرف غیر قانونی ہجرت میں کمی واقع ہوئی تھی۔ کورونا سے بچاؤ کے لیے پابندیوں میں اب نرمی آنا شروع ہوئی ہے اور پناہ کے متلاشی افراد کی یورپ کی طرف آمد میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
تصویر: Edvin Zulic/AP Photo/picture alliance
اشتہار
یورپ کورونا کی وبا کی چار لہروں سے کسی طرح نمٹ چکا ہے اور بہت سے یورپی باشندوں کے لیے روزمرہ زندگی اب کافی حد تک معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ پُر ہجوم مقامات پھر سے عوامی دلچسپی کا باعث بن رہے ہیں۔ کئی مقامات پر ماسک پہننے کی پابندی بھی ختم ہو گئی ہے۔ نئے لاک ڈاؤن کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ کئی یورپی ممالک میں ویکسینیشن کی شرح بلند ہونے کے سبب مستقبل میں بہتر صورتحال کی امید بڑھ گئی ہے۔ وبائی امراض کے پھیلاؤ کے دوران یورپی سرحدوں کی بندش اور دنیا بھر میں کورونا سے بچاؤ کے لیے نافذ کیے جانے والے سخت اقدامات سے یورپ کی طرف غیر قانونی امیگریشن میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی تھی، مگر اب یہ تعداد ایک بار پھر بڑھ رہی ہے۔اب کورونا ہجرت کے بحران کا ایک اہم عنصر بن سکتا ہے۔
ترکی اور یونان کی درمیانی سرحد تصویر: Nicolas Economou/NurPhoto/picture alliance
کورونا وبا کے آغاز کے ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کے بعد سامنے آنے والے اعداد و شمار اور تجزیوں سے اس امر کی نشاندہی ہو ئی ہے کہ کورونا وبا سے متعلق پابندیوں نے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو کس طرح متاثر کیا ہے۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے خلاف جنگ میں سرحدی کنٹرول، سفری پابندیاں اور دیگر اقدامات یورپ کی طرف ہجرت میں تیزی سے کمی کا سبب بنے۔ یورپی یونین کے کمیشن کے مطابق، ''یورپی یونین نے 2019ء کے مقابلے میں 2020ء میں پناہ کی درخواستوں میں مجموعی طور پر 33 فیصد کی کمی ریکارڈ کی۔اس کے علاوہ سرحد عبور کرنے کے واقعات 2013ء کے برابر رہے۔مہاجرین کے لیے امیر یورپی ممالک تک پہنچنے کا نیا راستہ
ہجرت یا پناہ کی تلاش کے واقعات میں کمی کیسے؟
یورپی یونین کمیشن کی طرف سے لگائے گئے اندازوں سے پتا چلا کہ اکثر کیسز میں پناہ کے متلاشی افراد پورپی یونین میں اپنی درخواستیں جمع ہی نہیں کروا پائے۔
بوسنیا اور کروشیا کے سرحدی علاقوں میں مہاجرین ناگفتہ یہ صورتحال سے دوچارتصویر: Marko Djurica/REUTERS
کورونا کی پابندیوں کی وجہ سے پناہ کے متلاشیوں کو اکثر عارضی طور پر حفظان صحت کے ابتر حالات میں حراست میں رکھا گیا۔ مثال کے طور پر یونانی جزیرے لیسبوس کے کیمپوں میں یا جن ممالک کی سرحدوں میں وہ داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے وہاں انہیں قرنطینہ میں رکھا گیا۔
یہ حالات و واقعات نہ صرف یورپ میں امیگریشن کے عمل میں واضح کمی کی وجہ بنے بلکہ اس تمام صورتحال نے یورپ کی طرف مہاجرین کے بہاؤ کے دھارے کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ سب سے اہم امر یہ کہ یونان میں سرحدی بندش نے مشرقی بحیرہ روم کو تارکین وطن کے لیے کم پُر کشش بنادیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پناہ کے متلاشی افراد کا راستہ وسطی بحیرہ روم کی طرف منتقل ہو گیا۔
مہاجرت کے رستے بدل گئے
یورپی یونین بارڈر گارڈ ایجنسی کے تازہ اندازوں کے مطابق تارکین وطن یا پناہ کے متلاشی افراد کے لیے اب یورپ کی سرحدی گزرگاہوں کی تصویر ہی بدل چُکی ہے۔
پولش سرحدی محافظ پولینڈ اور بیلا روس کی سرحد پر تعیناتتصویر: Maciej Moskwa/NurPhoto/picture alliance
فرونٹکس کے مطابق یورپی یونین میں غیر قانونی نقل مکانی پچھلے سال کے مقابلے میں جنوری سے اگست 2021ء تک 64 فیصد تک بڑھ گئی اور اس کے لیے مغربی بلقان کے راستے کو استعمال کیا گیا۔ یعنی زیادہ تر نقل مکانی کے لیے ترکی کے راستے بلقان ممالک جیسے کے البانیہ، سربیا اور شمالی مقدونیہ سے گزر کر وسطی بحیرہ روم پہنچنے کی کوشش کی گئی۔ ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 2020ء کے مقابلے میں اس روٹ کو اختیار کرنے والے پناہ کے متلاشیوں کی تعداد 2021ء میں دوگنا رہی۔ فرونٹیکس کے تجزیے کے مطابق رواں برس یورپ کی طرف نقل مکانی اور پناہ کی تلاش کے کاموں کا ایک طرح سے نیا آغاز ہوا ہے۔
دنیا بھر میں خطرات سے بھاگتے ہوئے مہاجرین کی بے بسی
جنگ، ظلم و ستم، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے سبب دنیا بھر میں تقریباﹰ 82.4 ملین افراد تحفظ کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا بچوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: KM Asad/dpa/picture alliance
سمندر میں ڈوبتا بچہ
یہ بچہ صرف دو مہینے کا تھا جب ہسپانوی پولیس کے ایک غوطہ خور نے اسے ڈوبنے سے بچایا تھا۔ گزشتہ ماہ ہزاروں افراد نے مراکش سے بحیرہ روم کو عبور کرتے ہوئے یورپ پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ اس تصویر کو خود مختار ہسپانوی شہر سبتہ میں مہاجرین کے بحران کی نمایاں عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Guardia Civil/AP Photo/picture alliance
کوئی امید نظر نہیں آتی
بحیرہ روم دنیا کے خطرناک ترین غیرقانونی نقل مکانی کے راستوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے افریقی پناہ گزین سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے میں ناکامی کے بعد لیبیا میں پھنس جاتے ہیں۔ طرابلس میں یہ نوجوان، جن میں سے بہت سے ابھی بھی نابالغ ہیں، لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کو اکثر مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: MAHMUD TURKIA/AFP via Getty Images
سوٹ کیس میں بند زندگی
بنگلہ دیش میں کوکس بازار کا مہاجر کیمپ دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہوں میں سے ایک ہے، جہاں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں وہاں بچوں پر تشدد، منشیات، انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر اور چائلڈ میرج جیسے مسائل کے خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔
تصویر: DANISH SIDDIQUI/REUTERS
حالیہ بحران
ایتھوپیا کے صوبے تیگرائی میں خانہ جنگی نے مہاجرین کے ایک اور بحران کو جنم دے دیا۔ تیگرائی کی 90 فیصد آبادی کا انحصار غیرملکی انسانی امداد پر ہے۔ تقریباﹰ 1.6 ملین افراد سوڈان فرار ہو گئے۔ ان میں سات لاکھ بیس ہزار بچے میں شامل ہیں۔ یہ پناہ گزین عارضی کیمپوں میں پھنسے ہیں اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
تصویر: BAZ RATNER/REUTERS
پناہ گزین کہاں جائیں؟
ترکی میں پھنسے شامی اور افغان پناہ گزین اکثر یونان کے جزیروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونانی جزیرے لیسبوس کے موریا مہاجر کیمپ میں کئی پناہ گزین بستے تھے۔ اس کیمپ میں گزشتہ برس ستمبر میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ موریا کیمپ کی یہ مہاجر فیملی اب ایتھنز میں رہتی ہے لیکن ان کو اپنی اگلی منزل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Karahalis
ایک کٹھن زندگی
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ’افغان بستی ریفیوجی کیمپ‘ میں مقیم افغان بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے۔ یہ کیمپ سن 1979 کے دوران افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد سے موجود ہے۔ وہاں رہائش کا بندوبست انتہائی خراب ہیں۔ اس کیمپ میں پینے کے صاف پانی اور مناسب رہائش کی سہولیات کا فقدان ہے۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
بقائے حیات کے لیے امداد
وینزویلا کے بہت سے خاندان اپنے آبائی ملک میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے ہمسایہ ملک کولمبیا چلے جاتے ہیں۔ وہاں انہیں غیرسرکاری تنظیم ریڈ کراس کی طرف سے طبی اور غذائی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ریڈکراس نے سرحدی قصبے آرائوکیتا کے ایک اسکول میں ایک عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔
تصویر: Luisa Gonzalez/REUTERS
ایک ادھورا انضمام
جرمنی میں بہت سے پناہ گزین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔ جرمن شہر کارلس روہے کے لرنفروئنڈے ہاؤس میں مہاجرین والدین کے بچے جرمن اسکولوں میں داخلے کے لیے تیار تھے لیکن کووڈ انیس کی وبا کے سبب ان بچوں نے جرمن معاشرے میں ضم ہونے کا اہم ترین موقع کھو دیا۔