بیلاروس کے صدر کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ متنازعہ انتخابات سے عوامی توجہ ہٹانے کے لیے انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں ملکی سرحدوں پر جمع ہو رہی ہیں۔ نیٹو نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Chirikov
اشتہار
بیلاروس کے دارالحکومت منسک میں اتوار کے دن بھی حکومت مخالف مظاہروں کا انعقاد کیا گیا۔ نو اگست کے متنازعہ صدارتی الیکشن کے بعد عوام سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ گزشتہ چھبیس برسوں سے اقتدار پر قابض صدر لوکاشینکو صدارتی عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ ناقدین لوکا شینکو کو 'یورپ کا آخری آمر‘ بھی قرار دیتے ہیں۔
تاہم صدر لوکاشینکو نے عوامی مطالبات مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ غیر ملکی عناصر بیلاروس میں انتشار چاہتے ہیں۔ اتوار کے دن ہی انہوں نے اپنے ایک نشریاتی خطاب میں کہا کہ ملکی سرحدوں پر 'غیر ملکی طاقتیں جمع ہو رہی ہیں‘۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے بیلاروس کے صدر الیکسانڈر لوکاشینکو کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے کہ نیٹو کے فوجی بیلاروس کے ساتھ سرحد کے قریب جمع ہو رہے ہیں۔
اپنے اس خطاب کے دوران فوجی وردی میں ملبوس لوکاشینکو نے کہا کہ انہوں نے ملکی فوج کو ہائی الرٹ کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سابق کمیونسٹ ریاست کو روس کی حمایت حاصل ہے۔ ناقدین کے مطابق پینسٹھ سالہ لوکاشینکو کے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کی وجہ یہی حمایت ہے۔
ہفتے کے دن پولینڈ کے ساتھ سرحد کے قریب واقع مغربی شہر گرودنو میں ایک چھاؤنی میں فوجی دستوں سے اپنے خطاب میں لوکاشینکو نے کہا تھا کہ غیر ملکی طاقتیں ملک میں 'انقلاب‘ لانے کی کوشش میں ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے فوج کو حکم دے دیا تھا کہ وہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
صدر لوکاشینکو نے ملکی فوج کو ہائی الرٹ کر دیا ہےتصویر: Reuters/BeITA
لوکاشینکو نے فوج سے کہا کہ وہ ملکی خود مختاری اور سالمیت کی حفاظت کرتے ہوئے ان سازشوں کو ناکام بنا دے۔ اتوار کے دن حکومت نے یہ بھی کہا کہ سرحدوں کی نگرانی کے علاوہ شہروں میں حساس مقامات کی حفاظت کے لیے بھی فوجی تعینات کی جائے گی۔ ایک بیان کے مطابق ملک میں کسی بھی یادگار کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ادھر اپوزیشن کی خاتون رہنما سَویتلانا تیخانوفسکایا نے کہا ہے کہ بیلاروس کے عوام لوکاشینکو کو کبھی بھی صدر تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ اس روس نواز صدر کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں دوبارہ الیکشن منعقد کرائے گئے تو وہ ان میں حصہ نہیں لیں گی۔
نو اگست کے متنازعہ صدارتی الیکشن میں وہ صدر الیکسانڈر لوکاشینکو کی اہم حریف تھیں۔ صدر لوکاشینکو کی کامیابی کے بعد تیخانوفسکایا سیاسی انتقام سے بچنے کی خاطر ہمسایہ ملک لیتھوانیا چلی گئی تھیں۔ گزشتہ ویک اینڈ پر منسک میں ایک لاکھ افراد نے احتجاج کیا تھا، جو اس ملک کی جدید تاریخ میں سب سے بڑا حکومت مخالف مظاہرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
یورپ سب کا ہے
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تیئیس سے چھبیس مئی کے درمیان ہوں گے۔ جرمنی اور یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں اس الیکشن کے حوالے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
ایک یورپ سب کے لیے
گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن دارالحکومت برلن میں سینکڑوں لوگ ’ایک یورپ سب کے لیے‘ کے بینر تلے ایک مارچ میں شریک ہوئے۔ بریگزٹ کے بعد برلن یورپی یونین کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اس شہر میں یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے افراد آباد ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
ہزاروں افراد سڑکوں پر
برلن میں ہوئے مارچ میں شریک افراد کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ یورپی پارلیمنٹ میں جرمنی سے چھیانوے افراد کو منتخب کیا جائے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کی کل نشستوں کی تعداد 751 ہے اور جرمنی سے یورپی پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ اراکین منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
فرینکفرٹ یورپ کے لیے
یورپی یونین اور یورپی سینٹرل بینک کی حمایت میں جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہزاروں افراد نے ایک ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی میں ماحول دوستوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، چرچ آرگنائزیشنز سے منسلک افراد اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے سرگرم ورکرز پیش پیش تھے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
کولون میں انتہائی بڑی ریلی
جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون میں پینتالیس ہزار افراد’ایک یورپ سب کے لیے‘ نامی ریلی میں شریک ہوئے۔ اس ریلی میں خاص طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس سیاسی جماعت کی لیڈر آندریا نہلس اور برلن حکومت کی وزیر انصاف کاٹارینا بارلی بھی شریک تھیں۔
تصویر: DW/R.Staudenmaier
یورپ کو محفوظ رکھا جائے
کولون میں ریلی کے شرکاء نے یورپ کو محفوظ رکھنے کی ایک مہم میں بھی حصہ لیا۔ ہزاروں لوگوں نے یورپ کے امن منصوبوں کو محفوظ رکھنے کی قرارداد پر دستخط کیے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عوامیت پسند سیاسی جماعتیں یورپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
’اشٹراخے۔ تم نیو نازی ہو‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی یورپ کے حق میں ایک مارچ کا انتظام کیا گیا اور اس میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کے شرکاء نے آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ اشٹراخے چند روز قبل ہی اپنے منصب سے مستعفی ہوئے ہیں۔ اُن کا تعلق فریڈم پارٹی آف آسٹریا سے ہے، جسے سن 1956 میں سابقہ نازیوں نے قائم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/PA/picturedesk/H. P. Oczeret
آسٹریائی لوگ نسل پسندی کے خلاف ہیں
آسٹریا میں قائم مخلوط حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے غیر یورپی باشندوں کی ہجرت کو روکنے کے کئی اقدامات کیے۔ مخلوط حکومت میں فریڈم پارٹی آف آسٹریا بھی شریک تھی۔ ویانا ریلی کے شرکا نے نسل پسندی کی پالیسی کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ آسٹریا کی مخلوط حکومت نے یورپ کی دوسری عوامیت پسند حکومتوں سے روابط بھی استوار کیے۔
تصویر: Reuters/L. Niesner
پولینڈ اور یورپ
یورپی یونین کی رکن ریاستوں پولینڈ، اسپین، ہالینڈ اور اٹلی میں بھی یورپ کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ پولینڈ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت برسراقتدار ہے۔ یہ حکومت اس وقت بعض متنازعہ اقدامات کے تناظر میں یورپی یونین کے ساتھ قانونی جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Skarzynski
یورپی یونین کی صدارت سے پولستانی صدارت تک
یورپ یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اپنے ملک میں یورپ کے حق میں نکالی گئی ریلی میں شریک تھے۔ پولینڈ کے سابق وزیر اعظم کی یورپی یونین کونسل کی مدت صدارت رواں برس دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ اپنے ملک کے سن 2020 کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔