یورپ کے سب سے بڑے مسلم قبرستانوں میں سے ایک آئندہ ہالینڈ میں
2 فروری 2020
ہالینڈ میں آباد مسلمان اس یورپی ملک میں آئندہ ایک ایسا خصوصی قبرستان بنانے کی کوشش میں ہیں، جو یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی ابدی آرام گاہوں میں سے ایک ہو گا۔ اس قبرستان میں مسلمانوں کی سترہ سو قبروں کے لیے جگہ ہو گی۔
اشتہار
ڈچ میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق یہ قبرستان ہالینڈ کے شہر گرونِنگن کے قریب زیُوڈلارن میں قائم کیا جائے گا اور اس کے لیے کوششیں 'بِیبِن‘ نامی ایک تنظیم کر رہی ہے۔ 'بِیبِن‘ ڈچ زبان میں ایسے الفاظ کا مخفف ہے، جن کا مطلب 'نیدرلینڈز میں مسلمانوں کا خصوصی قبرستان‘ بنتا ہے۔
'بِیبِن‘ (Bibin) کے صدر حامد امرینو کے مطابق ہالینڈ میں آباد مسلمانوں میں سے اب زیادہ سے زیادہ کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ انتقال کے بعد ان کی تدفین ان کے آبائی ممالک کے بجائے اسی یورپی ملک میں کی جائے۔ انہوں نے کہا، ''یہ رجحان اس لیے بھی زور پکڑ رہا ہے کہ ڈچ مسلمانوں میں یہ سوچ بہت زیادہ ترویج پا رہی ہے کہ ہالینڈ ہی ان کا وطن ہے اور ان کا مرنا اور جینا اسی ملک میں ہے۔‘‘
اس بارے میں ڈچ قبرستانوں کے انتظامی اداروں کی تنظیم کے ترجمان وِم وان مِڈوُوڈ نے بھی تصدیق کی کہ نیدرلینڈز میں مسلمانوں کے لیے تدفین کی جگہوں میں اضافے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا، ''ڈچ معاشرے میں مسلمانوں کی ایک پوری نسل ایسی ہے، جو یہیں پیدا ہوئی اور جو خود کو ہر حوالے سے ڈچ محسوس کرتی ہے۔ ایسے شہریوں کی خواہش ہوتی ہے کہ انتقال کے بعد ان کی تدفین اسی ملک میں کی جائے۔‘‘
ہالینڈ میں مسلمانوں کی آبادی ساڑھے آٹھ لاکھ
خبر رساں ادارے کے این اے نے بتایا ہے کہ 'بِیبِن‘ کے مطابق اس خصوصی قبرستان کی تعمیر کے لیے چار لاکھ یورو سے زائد کی رقوم درکار ہوں گی۔ اب تک ان رقوم کا نصف کے قریب حصہ جمع کیا جا چکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تنظیم اپنے اس منصوبے کے لیے بیرون ملک سے کوئی عطیات قبول نہیں کرتی بلکہ تمام تر وسائل مقامی مسلمانوں کی طرف سے مالی عطیات کی صورت میں جمع کیے جا رہے ہیں۔
نیدرلینڈز میں مسلمانوں کی کُل آبادی تقریباﹰ ساڑھے آٹھ لاکھ ہے۔ اسلامی مذہبی طریقہ کار کے مطابق کسی بھی مسلمان کے انتقال کے بعد جب اس کی تدفین کی جاتی ہے، تو اسے کسی قبر میں ہمیشہ کے لیے دفن کیا جاتا ہے۔ لیکن اکثر یورپی ممالک میں میت کے لواحقین کو مقامی قبرستانوں میں قبریں دس، بیس یا تیس سال کے لیے کرائے پر لینا پڑتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سے ڈچ مسلمان انتقال کے بعد اپنی تدفین کے لیے اب تک اس وجہ سے اپنے ترکی اور مراکش جیسے آبائی ممالک کا انتخاب کرتے ہیں کہ یوں ان کی تدفین ایک ہی بار اور ہمیشہ کے لیے کر دی جائے، یا پھر اس لیے کہ ان کی قبر کبھی ناپید نہ ہو جائے۔
یورپ کے مشہور مسلمان سیاستدان
جرمن چانسلر کی سیاسی جماعت کے ایک سینئیر اہلکار کے ایک حالیہ بیان نے ہلچل پیدا کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ کوئی مسلمان بھی مستقبل کا جرمن چانسلر ہو سکتا ہے۔ اسی تناظر میں یورپ کے کامیاب مسلمان سیاستدانوں پر ایک نظر!
تصویر: Getty Images/AFP/O. Scarff
پاکستانی نژاد برطانوی مسلمہ اور بیرونس
سعیدہ وارثی (سامنے) برطانوی کابینہ میں شامل ہونے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں۔ یہ سن دو ہزار دس سے بارہ تک کنزرویٹو پارٹی کی شریک چیئرپرسن بھی تھیں۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں وارثی نے وزیر اعظم ٹریزا مے سے مطالبہ کیا کہ وہ عوامی سطح پر قبول کریں کہ ان کی پارٹی کو اسلاموفوبیا کے مسائل کا سامنا ہے۔ ڈاؤننگ سٹریٹ میں ان کی پہلی میٹنگ کے دوران ان کے روایتی پاکستانی لباس کو بھی وجہ بحث بنایا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Scarff
فرانس اور یورپ کی آواز
مغربی دنیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد فرانس میں آباد ہے اور اسلام اس ملک کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ لیکن آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کا سیاست میں کردار بہت ہی محدود ہے۔ رشیدہ داتی فرانسیسی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرنے والی چند مسلم شخصیات میں سے ایک ہیں۔ وہ سن دو ہزار سات سے دو ہزار نو تک وزیر انصاف بھی رہیں۔ اس وقت وہ یورپی پارلیمان کی رکن ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Huguen
ایک ڈچ نومسلم
ڈچ سیاستدان جورم وان کلیویرین اسلام کے سخت ناقد تھے۔ انہوں نے اسلام کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی۔ لیکن حال ہی میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ایک اسلام مخالف کتاب لکھنے کے دوران مسلمان ہو گئے تھے۔ ہالینڈ کے اسلام مخالف اور بہت متنازعہ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز نے اپنے اس دیرینہ ساتھی کے حوالے سے کہا تھا کہ ان کا اسلام قبول کرنا ایسے ہی ہے، جیسے ایک سبزی خور کو مذبحہ خانے میں ملازمت دے دی جائے۔
تصویر: AFP/Getty Images/ANP/B. Czerwinski
ہالینڈ کا مشہور میئر
احمد ابو طالب سن دو ہزار نو میں ڈچ شہر روٹرڈیم کے میئر بنے تھے۔ وہ ہالینڈ کے اولین تارک وطن میئر تھے۔ ابو طالب ان مسلمانوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جو رہائش کے لیے تو مغرب کا انتخاب کرتے ہیں لیکن آزادی اظہار کے مخالف ہیں۔ نیوز ایجنسی اے این پی کے ایک سروے کے مطابق سن دو ہزار پندرہ میں وہ ہالینڈ کے سب سے مقبول سیاستدان قرار پائے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Maat
اور برطانیہ میں
صادق خان سن دو ہزار سولہ سے لندن کے میئر ہیں۔ وہ سن دو ہزار پانچ سے سن دو ہزار سولہ تک لیبر پارٹی کی طرف سے رکن پارلیمان بھی رہے۔ بریگزٹ مہم میں ان کا موقف یہ تھا کہ یورپی یونین میں ہی رہا جائے۔ انہیں سن دو ہزار سولہ میں سال کا بہترین سیاستدان قرار دیتے ہوئے برٹش مسلم ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ ایک باعمل مسلمان ہیں اور باقاعدگی سے مسجد بھی جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Yui Mok
جرمنی کا ’سیکولر مسلمان‘
ترک نژاد جرمن سیاستدان چَيم اؤزديمير گزشتہ کئی برسوں سے گرین پارٹی کا نمایاں ترین چہرہ ہیں۔ وہ سن دو ہزار آٹھ سے سن دو ہزار اٹھارہ تک اس ماحول پسند جرمن سیاسی جماعت کے شریک سربراہ بھی رہے ہیں۔ وہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے دور اقتدار میں ترکی کے یورپی یونین کا حصہ بننے کے بھی خلاف ہیں۔ وہ خود کو ایک ’سیکولر مسلم‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Hirschberger
6 تصاویر1 | 6
غیر معینہ مدت کے لیے تدفین پر فی کس اوسط لاگت آٹھ ہزار یورو
ڈچ روزنامے 'وولکس کرانٹ‘ کے مطابق ہالینڈ میں اگر کسی میت کو غیر معینہ عرصے کے لیے کسی قبر میں دفنانا مقصود ہو، تو اس پر اوسطاﹰ تقریباﹰ آٹھ ہزار یورو لاگت آتی ہے۔ یہ بےتحاشا خرچہ بھی ایک وجہ ہے کہ اکثر ڈچ مسلمان یا ان کے لواحقین اپنے گھرانے کی کسی بھی میت کی تدفین کے لیے زیادہ تر آبائی وطن ہی کا انتخاب کرتے آئے ہیں۔
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
'بِیبِن‘ کے سربراہ حامد امرینو کے مطابق گرونِنگن کے قریب اس آئندہ خصوصی مسلم قبرستان میں کسی بھی مسلمان کی کسی قبر میں ہمیشہ کے لیے تدفین پر اوسطاﹰ زیادہ سے زیادہ تین ہزار یورو لاگت آیا کرے گی۔
جرمنی کی مثال
نیدرلینڈز کی طرح اس کے ہمسایہ ملک جرمنی میں بھی، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، مسلمانوں کی آبادی کئی ملین بنتی ہے۔
جرمنی میں آباد مسلمانوں کی اکثریت نسلی طور پر ترک ہے اور ان میں بھی یہ خواہش اب زیادہ سے زیادہ پائی جاتی ہے کہہ انتقال کے بعد انہیں جرمنی ہی میں مسلمانوں کے کسی مقامی قبرستان میں دفنایا جائے۔
جرمنی کے کئی شہروں کے عام قبرستانوں میں، جہاں ملک کی اکثریتی مسیحی آبادی سے تعلق رکھنے والے مسیحیوں کو دفنایا جاتا ہے، مسلمانوں کی تدفین کے لیے اکثر قبرستان کا ایک حصہ مختص کر دیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ وائن ویسٹ فیلیا کے شہر وُوپرٹال میں ایک ایسے نئے قبرستان کی تعمیر کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے، جو جرمنی میں مسلمانوں کے بڑے قبرستانوں میں سے ایک ہو گا۔
م م / ش ح (کے این اے، ڈی پی اے)
جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھل گئے
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔