ایرانی صدر نے یورینیئم افزودگی کو تیز تر کرنے کے لیے سینٹری فیوجز کی موجودہ قسم کو اپ گریڈ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس سلسلے کا آغاز جمعہ چھ ستمبر سے کیا جا رہا ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ یورینیئم افزودگی کا درجہ بڑھانے کے حوالے سے معاہدے میں طے کردہ پابندیوں کو چھ ستمبر کے روز ختم کر دیا جائے گا۔ ایرانی صدر کا یہ اعلان درحقیقت سن 2015 کی جوہری ڈیل کے منافی تیسرا اقدام خیال کیا گیا ہے۔
تاہم ایرانی صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ نیا اقدام بھی پرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس کی نگرانی اقوام متحدہ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اگر یورپی اقوام اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو پھر سبھی کچھ الٹ ہو کر رہ جائے گا۔ روحانی نے ڈیل میں شامل ممالک کو دو ماہ کی مہلت دی ہے کہ اگر ڈیل میں طے کی گئی شرائط پر عمل کیا گیا تو ایران بھی اس سمجھوتے کی پوری طرح پابندی کرے گا۔
ایران نے اقتصادی مراعات کے عوض اپنے جوہری پروگرام کو ایک حد کے اندر رکھنے کی حامی بھری تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اس جوہری معاہدے سے الگ ہونے اور پھر ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے بعد رواں برس جولائی میں ایران حکومت نے جوہری معاہدے میں دی گئی اپنی دو کمٹ منٹس سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔
ایران کے شہر بوشہر میں روس کی مدد سے تعمیر کیا جانا والا جوہری توانائ.ی کا مرکزتصویر: Getty Images/IIPA
ان میں ایک افزودہ یورینیئم کی تین سو کلوگرام تک ذخیرہ کرنے کی حد کو ختم کرنا اور دوسری پہلے سے افزودہ یورینیئم کی افزودگی کے درجے کو بڑھانے سے متعلق پابندی کو ختم کرنا شامل ہے۔
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سن 2015 کی ڈیل طے ہونے سے قبل امریکا اور اتحادیوں کو ایسا خدشہ لاحق تھا کہ ایران اپنے تحقیقی اور غیر فوجی جوہری پروگرام کی آڑ میں دراصل جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایران اس الزام کی تردید کرتا چلا آ رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں اس ڈیل سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ یورپی اقوام اس امریکی فیصلے کی مخالف رہی ہیں اور ابھی تک اس کوشش میں ہیں کہ جوہری ڈیل کو کسی بھی طور پر قائم رکھا جا سکے۔ یورپی طاقتیں ایران کو امریکی اقتصادی پابندیوں سے بچانے کی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ع ح / ا ب ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔