بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے عرضی گزار سے کہا کہ چونکہ بینچ کو غلط لقب سے مخاطب کیا گيا اس لیے سماعت ملتوی کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
اشتہار
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوڈے کی سربراہی والی ایک بینچ نے ’’غیر مناسب طریقے‘‘ سے عدالت عظمٰی کو مخاطب کرنے مدعی کو متنبہ کیا اور کہا کہ غیر مناسب القابات سےگریز کیا جائے۔ بینچ نے اس بات پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور سماعت یہ کہہ کر ملتوی کر دی گئی کہ پہلے اچھی طرح سے تیاری کی جائے جس کے بعد سماعت ہوگی۔
معاملہ کیا تھا؟
اپنے کیس کی پیروی کرتے ہوئے ایک وکیل نے جب عدالت کو ’یور آنر‘ (عزت ماب) کے الفاظ سے مخاطب کیا تو چیف جسٹس نے کہا، ’’آپ ہمیں یور آنر جیسے غلط الفاظ سے مخاطب نہ کریں، کیونکہ یہ امریکا کی سپریم کورٹ نہیں ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’جب آپ ہمیں یور آنر کہتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کے ذہن میں امریکی سپریم کورٹ ہے۔‘‘ جج صاحبان کا کہنا تھا کہ یور آنر جیسے الفاظ امریکی سپریم کورٹ میں اور بھارت کی مجسٹریٹ سطح کی عدالتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اس پر مذکورہ وکیل نے فوری طور معذرت پیش کی اور کہا کہ پھر وہ عدالت عظمی کو ’یور لارڈ شپ‘ کہہ کر پکاریں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا، ’’کچھ بھی ہو، لیکن غیر مناسب القابات سے قطعی مخاطب نہ کریں۔‘‘
اس کے بعد بینچ نے درخواست گزار سے کہا کہ وہ آئندہ سپریم کورٹ میں حاضر ہونے سے پہلے پوری طرح تیاری کر کے آئیں اور اس کے ساتھ سماعت چار ہفتوں کی لیے ملتوی کر دی گئی۔
ہم پر انگلی کيوں اٹھائی؟ مودی حکومت کی طرف سے عالمی شخصیات کی مذمت
بھارتی کسانوں نے متنازعہ زرعی اصلاحات کی مخالفت ميں دو ماہ سے زائد عرصے سے نئی دہلی کے مضافات ميں دھرنا دے رکھا ہے۔ کئی عالمی شخصيات نے کسانوں کے حق ميں بيانات ديے، جنہیں مودی حکومت نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Radke
اہم شخصيات کی حمايت اور بھارت کی ناراضگی
سوشل ميڈيا پر مشہور گلوکارہ ريحانہ اور سويڈش ماحولیاتی کارکن گريٹا تھونبرگ سميت کئی اہم عالمی شخصيات نے بھارت ميں سراپا احتجاج کسانوں کی حمايت کی۔ بھارتی حکومت نے اسے اپنے اندرونی معاملات ميں ’دخل اندازی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Ivanov
اصلاحات يا کارپوريشنوں کا مفاد؟
گزشتہ برس ستمبر ميں بھارتی حکومت نے زراعت کے شعبے ميں نئے متنازعیہ قوانین وضع کیے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اقدامات بڑی بڑی کارپوريشنوں کے مفاد ميں ہيں۔ کسانوں نے دو ماہ سے زائد عرصے قبل دارالحکومت دہلی کے نواح ميں اپنا احتجاج شروع کيا۔ مگر وزيراعظم نريندر مودی ڈٹے ہوئے ہيں کہ اصلاحات کسانوں کے مفاد ميں ہيں اور انہيں واپس نہيں ليا جائے گا۔
تصویر: Manish Swarup/AP Photo/picture alliance
نيا قانون کيوں متنازعہ؟
کسانوں تنظیموں کا موقف ہے کہ نيا قانون اس بات کی گارنٹی نہيں ديتا کہ زرعی پيداوار کسی کم از کم قيمت پر بک سکے گی، جس کے باعث وہ کارپوريشنوں کے چنگل ميں پھنس جائيں گے۔ اپنے مطالبات منوانے کے ليے کسانوں نے کئی ريلياں نکاليں۔ چھبيس جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر ايک ريلی ميں ہنگامہ آرائی کے بعد سے ماحول کشيدہ ہے۔
تصویر: Danish Siddiqui/REUTERS
ريحانہ
باربيڈوس کی معروف پاپ اسٹار ريحانہ نے حال ہی ميں بھارتی کسانوں کی حمايت کا اظہار کيا۔ انہوں نے ٹوئيٹ میں کہا، ’’ہم اس بارے ميں بات کيوں نہيں کر رہے؟‘‘ عالمی سطح پر ان کی اس ٹوئيٹ کو کافی سراہا گيا مگر بھارت ميں کئی نامور ستارے اپنے ملک کے دفاع ميں بول پڑے اور ريحانہ کے خلاف کافی بيان بازی کی۔
تصویر: picture alliance/dpa/A.Cowie
گريٹا تھونبرگ
اٹھارہ سالہ ماحول دوست کارکن گريٹا تھونبرگ نے بھی ايک ٹوئيٹ ميں بھارتی کسانوں اور ان کی تحريک کی حمايت کی، جس پر حکمران بھارتی جنتا پارٹی کافی نالاں دکھائی دے رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Hitij
جسٹن ٹروڈو
کينيڈا کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو نے دسمبر ميں کسانوں کی حمايت ميں بيان ديتے ہوئے دھرنے پر تشويش ظاہر کی۔ اس پر بھارتی وزارت خارجہ نے بيان جاری کيا کہ ٹروڈو کا بيان بھارت کے اندونی معاملات ميں دخل اندازی ہے۔
تصویر: Sean Kilpatrick/The Canadian Press/ZUMAPRESS.com/picture alliance
امانڈا سرنی
انسٹاگرام اسٹار امانڈا سرنی نے اپنے اکاؤنٹ پر تين بھارتی خواتين کی تصوير شيئر کی، جس پر لکھا تھا کہ ’دنيا ديکھ رہی ہے۔ آپ کا يہ مسئلہ سمجھنے کے ليے بھارتی، پنجابی يا جنوبی ايشيائی ہونا ضروری نہيں۔ صرف انسانيت کے ليے فکر ضروری ہے۔ ہميشہ آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت، سب کے ليے بنيادی شہری حقوق اور ملازمين کے احترام کا مطالبہ کريں۔‘
تصویر: Scott Roth/Invision/AP/picture alliance
مينا ہيرس
امريکی نائب صدر کملا ہيرس کی بھانجی اور وکيل مينا ہيرس نے بھی ٹوئيٹ کی کہ ’ہم سب کو بھارت ميں انٹرنيٹ کی بندش اور کسانوں کے خلاف نيم فوجی دستوں کے تشدد پر برہم ہونا چاہيے۔‘
تصویر: DNCC/Getty Images
جم کوسٹا
امريکی ڈيموکريٹ سياستدان جم کوسٹا نے بھی بھارت ميں کسانوں کی تحريک کی حمايت کی ہے۔ انہوں نے وہاں جاری حالات و واقعات کو پريشان کن قرار ديا۔ خارجہ امور سے متعلق کميٹی کے رکن کوسٹا نے کہا کہ کسانوں کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے اور اس کا احترام لازمی ہے۔
تصویر: Michael Brochstein/ZUMA Wire/picture alliance
روپی کور
چوٹی کی نظميں لکھنے والی بلاگر روپی کور نے ريحانہ کی جانب سے اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کی تعريف کی اور خود بھی کسانوں کی حمايت ميں بيان ديا کہ بھارت ميں زراعت کا شعبہ مشکلات کا شکار ہے۔ گزشتہ دو برسوں ميں وہاں کئی کسان خود کشياں کر چکے ہيں۔
تصویر: Chris Young/The Canadian Press/AP Images/picture alliance
جان کيوسک
امريکی اداکار اور رضاکار جان کيوسک بھی اس سال جنوری سے بھارتی کسانوں کی تحريک کی حمايت ميں بيان ديتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
11 تصاویر1 | 11
وکیل شری کانت نے بھارت میں برسوں سے پڑے لاکھوں مقدمات، ججوں کی کمی اور عدالتوں کے ناکارہ انفرا اسٹرکچر کی بہتری کے لیے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی دائر کی تھی اور اسی بارے میں یہ سماعت تھی۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اس بارے میں خصوصی ہدایات جاری کرے تاکہ عدالتوں کا نظام بہتر ہو سکے اور برسوں سے التوا کے شکار لاکھوں مقدمات پر فیصلے ہوسکیں۔ مقدمے کی پیری کے لیے وہ خود ہی پیش ہوئے تھے۔
گزشتہ برس بھی چیف جسٹس ایس کے بوڈے نے ایک وکیل کے یور آنر کہنے کا سخت نوٹس لیا تھا اور کہا تھا کہ بھارت کی سپریم کورٹ میں یہ طریقہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس معاملے میں جج نے اسی وجہ سے سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی تھی۔
اشتہار
نوآبادیاتی دور کی روایت سے نجات کی ناکام کوشش
بھارت میں برسوں سے یہ کوشش رہی ہے کہ برطانوی دور کی ان روایات سے نجات حاصل کی جائے جس میں ججز کو ’مائی لارڈ‘ یا پھر ’یور لارڈ شپ‘ کہنے کا رواج رہا ہے۔ اسی وجہ سے سن 2006 میں بار کونسل آف انڈيا نے ایک قرار داد منظور کی تھی اور اس میں ان القابات کے بجائے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے لیے ’یور آنر‘ یا پھر ’آنر ایبل کورٹ‘ کہنے کی بات کہی گئی تھی۔
اس اصول پر گزشتہ کئی برسوں سے عمل بھی ہوتا رہا تھا اور ماضی میں کئی جج نے اس بات پر اعتراض بھی کیا تھا کہ انہیں مائی لارڈ کہہ کر نہ پکارا جائے۔ تاہم بار کونسل نے بعد میں اپنے انہی اصولوں سے انحراف کیا۔
گزشتہ روز بار کونسل آف انڈيا نے ایک اور وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ سن 2019 میں اس نے اعلٰی عدالتوں کے مراتب اور ان کے وقار کی بجالی کے لیے یور آنر جیسے الفاظ سے مخاطب نہ کرنے کا ہدایت نامہ جاری کیا تھا۔
اس تازہ بیان کے مطابق وکلا سے کہا گيا ہے کہ وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کو ’مائی لارڈ‘ یا پھر ’یور لارڈ شپ‘ کے القابات سے مخطاب کریں۔ یعنی ایک بار پھر اسی پرانی روایت پر عمل کرنے کو کہا گيا ہے جس سے پہلے نجات پانے کی کوششیں ہوچکی ہیں اورججوں کی بھی یہی مرضی ہے۔
بابری مسجد انہدام کیس: مجرم کون؟
بھارت کے اجودھیا میں 6 دسمبر1992 کوتقریباً 400 سالہ قدیم تاریخی بابری مسجد کو منہدم کردینے کے کیس میں لکھنؤ میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت 30 ستمبر کو فیصلہ سنانے والی ہے۔
تصویر: AP
انتظار کی گھڑی ختم
بابری مسجد کے انہدام کے تقریباً 28 برس بعد عدالت یہ فیصلہ سنانے جارہی ہے کہ اس مسجد کو منہدم کرنے کی سازش کرنے والوں میں کون کون لوگ شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D .E. Curran
کون مجرم ہے؟
سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، بی جے پی کے رہنما مرلی منوہر جوشی، اومابھارتی، ونئے کٹیار،کلیان سنگھ، سادھوی رتھمبرا 32 ملزمین میں شامل ہیں۔ دیگر ملزمین میں اشوک سنگھل، گری راج کشور، وشنو ہری ڈالمیا وفات پاچکے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
کیا ہوگا انجام
بابری مسجد انہدام میں دو کیس دائر کیے گئے۔ ایک لاکھوں نامعلوم ’کارسیوکوں‘ کے خلاف اور دوسرا انہدام کی سازش تیار کرنے والے آٹھ افراد کے خلاف۔ شدت پسند ہندووں کی طر ف سے صحافیوں پر حملوں کے 47 مزید کیس بھی دائر کیے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. E. Curran
سینکڑوں ہلاکتیں
بابری مسجد کے انہدام کے بعد پورے بھارت میں فسادت پھوٹ پڑے تھے۔جن میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 1800افراد مارے گئے۔ تاہم ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ بتائی جاتی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
دیرینہ مطالبہ
مسلمان بابری مسجد کے قصورواروں کے خلاف کارروائی کا ایک عرصے سے مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ ہر برس چھ دسمبر کو ’یوم سیاہ‘ مناتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Ghosh
نئی شناخت
قوم پرست ہندو تنظیمیں 6 دسمبر کو ’یوم شجاعت‘ کے طور پر مناتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دن بھارت میں ہندووں کو ایک نئی شناخت ملی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
رام مندر
منہدم بابری مسجد کی جگہ اب ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 5 اگست 2020 کو اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ ایک برس قبل اسی دن جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی گئی تھی۔
تصویر: AFP/P. Singh
کچھ بچا تو نہیں نا؟
لال کرشن اڈوانی نے اپنی خودنوشت ’میراوطن میری زندگی‘ میں لکھا ہے کہ جب بابری مسجد منہدم ہوجانے کے بعد وہ اجودھیا سے لکھنؤ جارہے تھے تو ایک اعلی سرکاری افسر نے ا ن سے پوچھا ”اڈوانی جی، کچھ بچا تو نہیں نا؟ بالکل صاف کردیا نا؟“
تصویر: AFP/Getty Images
سماجی تانا بانا تباہ
اڈوانی نے رتھ یاترا کے دوران اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے بھارت کے سماجی تانے بانے کوتباہ کردیا۔ ہندووں اور مسلمانوں میں نفرت کی جو خلیج پیدا ہوئی وہ مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔
تصویر: Fotoagentur UNI
مجھ پرجھوٹا الزام
سابق وفاقی وزیر مرلی منوہر جوشی کا کہنا ہے کہ انہیں بابری مسجد انہدام کیس میں جھوٹا پھنسایا جارہا ہے۔ وہ انہدام کے سلسلے میں سازش نہیں کی تھی۔ حالانکہ انہدام کے وقت کی تصویروں میں وہ مسجد سے تھوڑ ی دور پر اوما بھارتی کے ساتھ انتہائی مسرت کا اظہار کرتے نظر آرہے تھے۔
تصویر: AP
معافی نہیں مانگوں گی
سابق وزیر سادھوی اوما بھارتی نے بھی ہندووں کے جذبات بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا تھا۔ اوما بھارتی کا کہنا ہے کہ اجودھیا تحریک میں شامل ہونے پر انہیں فخر ہے اور اگر انہیں پھانسی کی سزا بھی دی گئی تو وہ معافی نہیں مانگیں گی۔
تصویر: Fotoagentur UNI
حلف نامے کی خلاف ورزی
بابری مسجد انہدام واقعہ کے دوران اترپردیش کے وزیر اعلی کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے کہا تھا کہ وہ مسجد کو کوئی نقصان پہنچنے نہیں دیں گے۔
تصویر: AP
وعدہ تیرا وعدہ
کانگریسی وزیر اعظم پی وی نرسمہا راو نے 7 دسمبر1992 کو بابری مسجد کواسی جگہ دوبارہ بنانے کا وعدہ کیا۔ لیکن یہ صرف وعدہ ہی رہا۔ اڈوانی کے مطابق’نرسمہاراو اور ان کی کانگریس پارٹی نے ہندووں اورمسلمانوں دونوں کا اعتماد کھودیا۔‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo
کانگریس بھی بے داغ نہیں
بابری مسجد انہدام کے لیے بی جے پی کے ساتھ ہی کانگریس پارٹی کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالہ کھلوا کر وہاں پوجا کی اجازت دے کر ایک نئے تنازعہ کی بنیاد رکھ دی۔
تصویر: Imago/Sven Simon
ایک ووٹ یعنی ایک اینٹ
بابری مسجد۔رام جنم بھومی بھارت میں اب بھی ایک اہم سیاسی موضوع ہے۔ بہار میں اگلے ماہ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ پارٹی کے لیے ہر ایک ووٹ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک اینٹ کی طرح ہوگا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Armangue
سزا یا باعزت بری
اب پورے بھارت کی نگاہیں 30 ستمبر کو عدالت کے فیصلے کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ آیا بابری مسجد کے انہدام کے مجرموں کو سزا ملے گی یا انہیں باعزت بری کردیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
سکیورٹی انتظامات
حکومت نے کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لیے تمام ریاستوں کو سکیورٹی انتظامات بڑھادینے کی ہدایت دی ہے۔
تحریر: جاوید اختر