بھارت میں آج یوم اطفال منایا جارہا ہے۔ تاہم قوم کا مستقبل سمجھے جانے والے بچوں کی صورت حال پریشان کن ہے کیونکہ یہ بردہ فروشی، جنسی تشدد، جبری مزدوری اور کم عمری کی شادی جیسے متعدد مسائل سے دوچار ہیں۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق بچوں کی تعداد کے حوالے سے بھارت دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ آبادی کے لحاظ سے صفر سے چار سال کی درمیانی عمر کے دنیا کے بیس فیصد بچے بھارت میں ہیں تاہم انہیں متعدد مسائل اور پریشانیوں کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے نہ تو ان کی خاطر خواہ نشو ونماہو پاتی ہے اور نہ ہی وہ مناسب طور پر ترقی کر پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی صورت حال زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔
وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے مطابق گوکہ پیدائش کے وقت بچوں کی شرح اموات میں امید افزا کمی ہوئی ہے تاہم صورت حال اب بھی باعث تشویش ہے۔ رحم مادر میں لڑکیوں کو ہلاک کر دینے کے واقعات کم ہوئے ہیں لیکن یہ رجحان اب بھی برقرار ہے اور غیر قانونی طور پر اسقاط حمل کے واقعات روکنے میں ابھی بھی مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ پاپولیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق سن 2000 سے سن 2014 کے درمیان ایک کروڑ سے زیادہ (12,771,043) حمل گرائے گئے، یعنی اوسطاً ڈھائی ہزار حمل روزانہ ۔
اعداد وشمار کے مطابق رحم مادر میں لڑکیوں کو قتل کرنے کے واقعات دنیا میں اب بھی سب سے زیادہ بھارت میں پیش آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ1991ء سے2011ء کے دوران بچوں کا صنفی تناسب (صفر۔ چھ سال عمر گروپ) 945 سے گھٹ کر 914 ہوگیا۔ سن2001 میں صفر سے چھ برس کی درمیانی عمر کی بچیوں کی تعداد 78.83ملین تھی جو سن 2011 میں کم ہو کر تقریبا ً75.84 ملین رہ گئی۔حالانکہ حکومت نے بچیوں کی جنین کشی کو روکنے کے لیے کئی اقدامات اور ان کی پیدائش کی حوصلہ افزائی کے لیے کئی طرح کی مراعات کا اعلان کر رکھا ہے لیکن یہ اقدامات بہت زیادہ موثر اور سود مند ثابت نہیں ہورہے ہیں۔ سن 2015 میں نریندر مودی حکومت نے ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ منصوبہ شروع کیا۔ لڑکیوں کی پیدائش اور ان کی پرورش کی حوصلہ افزائی کے لیے بالیکا سمردھی یوجنا اور دھن لکشمی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔
چند سکوں کے عوض بکتی معصومیت
عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 168 ملین بچے کان کنی، کارخانوں اور زرعی صنعت میں انتہائی سخت اور نامساعد حالات میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
سالانہ یاد دہانی
اقوام متحدہ ہر سال بارہ جون کو چائلد لیبر کے خلاف عالمی دن مناتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں 168 ملین بچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی طرف دھیان مبذول کرانا ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے رکن ممالک نے 1999ء میں ایک کنوینشن منظور کیا تھا، جس میں چائلڈ لیبر کی انتہائی بری اقسام کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اس کنوینشن کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہر فرد بچہ تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: imago/Michael Westermann
بھارت میں تیار کیے گئے تولیہ
بھارتی ریاست تامل ناڈو کی اس فیکٹری میں بچے تولیے تیار کرتے ہیں۔ آئی ایل او کے تخمینوں کے مطابق دنیا کی سب سے بڑے اس جمہوری ملک میں 78 ملین بچوں سے ناجائز مزدوری کا کام لیا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں پانچ سے سترہ برس کی عمر کے بچوں کی دس فیصد تعداد باقاعدہ بنیادوں پر چائلد لیبر کرتی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
ایک دن کی مزدوری کےعوض صرف 80 سینٹ
لکھنے پڑھنے اور اسکول جانے کے بجائے یہ بچے اینٹیں بناتے ہیں۔ شدید غربت کی وجہ سے بہت سے بچے چائلڈ لیبر پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنے کبنے کی کفالت کے لیے اپنا پچپن فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچے روزانہ کم ازکم دس گھنٹے کام کرتے ہیں اور انہیں یومیہ تقریباﹰ صرف 80 سینٹ مزدروی ملتی ہے۔
تصویر: imago/Eastnews
سستی مزدروی
بھارتی حکومت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا کے اس اہم ملک میں 12.6 ملین بچے چائلڈ لیبر کرتے ہیں۔ یہ بچے سڑکوں میں ٹھیلے لگانے کے علاوہ درزی، باورچی خانوں، ریستورانوں میں صفائی ستھرائی اور وزن اٹھانے کے علاوہ بھٹیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ بالغوں کے مقابلے میں ان بچوں کو اجرت بھی کم دی جاتی ہے یعنی اگر ایک کام کے ایک بالغ کو ایک روپے ملتے ہیں تو اسی کام کے ایک بچے کو 33 پیسے دیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago/imagebroker
غیر انسانی حالات
عالمی ادارہ محنت کی 2013ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق چائلد لیبر کرنے والوں میں سے پچاس فیصد سے زائد کو انتہائی برے حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں رات گئے تک لمبے اوقات تک کام کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے بچے بغیر کسی کانٹریکٹ اور ملازمین کو ملنے والے فوائد کے بغیر ہی مزدوری کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
بنگلہ دیش کی مصنوعات
بنگلہ دیش میں بھی چائلد لیبر کی شرح انتہائی بلند ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں تقریباﹰ پانچ ملین بچے ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہے۔ انتہائی برے حالات میں تیار کیے جانے والے یہ کپڑے ترقی یافتہ ممالک میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago/Michael Westermann
ایک بڑے شہر میں تنہا
کمبوڈیا میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ وہاں زیادہ تر بچے اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں جبکہ ہزاروں بچے سڑکوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مثال کے طور پر دارالحکومت پنوم پن میں اس بچی کو اپنی کفالت خود ہی کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فہرست طویل ہے
اگرچہ 2000ء کے بعد عالمی سطح پر مشقت کرنے والوں بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے تاہم کئی ایشیائی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال، کمبوڈیا اور میانمار میں ان معصوم بچوں کی صورتحال تاحال خستہ ہی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
8 تصاویر1 | 8
ایشین سینٹر فار ہیومن رائٹس کے سروے کے مطابق اولاد نرینہ کی خواہش بھارت میں بچیوں کے رحم مادر میں قتل کی ایک بڑی وجہ ہے۔ شادی میں بھاری بھرکم جہیز کا بوجھ اور لڑکیوں کے جنسی استحصال کا خوف بھی ایسے عناصر ہیں جن کی وجہ سے والدین لڑکیوں کے بجائے لڑکوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
بھارت میں بچوں سے مشقت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سن2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد تقریباً 117 لاکھ تھی۔ یہاں عام تاثر ہے کہ بچوں کو مزدوری پر لگا کر یا انہیں روزگار دے کر انہیں غربت سے باہر نکالنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے بچوں پر پڑنے والے نفسیاتی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور جب تک غربت پر قابو نہیں پایا جاتا اس وقت تک چائلڈ لیبر کی لعنت کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ بچوں کو خطرناک کاموں میں بھی لگایا جاتا ہے۔ نوبل امن انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی کی تنظیم بچپن بچاؤ آندولن کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوری سن 2010 سے دسمبر سن 2014 کے درمیان ان کی تنظیم نے 5254 ایسے بچوں کو بچایا جن سے پر خطر کام کرائے جا رہے تھے۔ ایسے ہزاروں بچے اب بھی ایسے کام کرنے کے لیے مجبور ہیں۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2014میں بچوں کے خلاف جرائم کے 89423 واقعات درج کرائے گئے۔ سن 2015 میں یہ تعداد بڑھ کر 94172 ہو گئی جب کہ سن 2016 میں یہ 1,05,785پہنچ گئی۔
بچوں کا جنسی استحصال بھی بھارت میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ وزارت خواتین اور بہبود اطفال کی ایک رپورٹ کے مطابق افسوس ناک بات یہ ہے کہ اٹھاسی فیصد سے زیادہ بچے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ذریعہ استحصال کا شکار ہوتے ہیں لیکن سماج میں بدنامی کے خوف سے جنسی استحصال کے بیشتر واقعات پولیس میں درج کرائے ہی نہیں جاتے ہیں۔ سن 2014 سے سن 2016 کے درمیان بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے واقعات کی تعداد 8904 سے بڑھ کر 35908 ہوگئی۔ یعنی اس میں چار گنا اضافہ ہوا۔ دہلی خواتین کمیشن کی چیئرمین سواتی مالیوال نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے دنوں قومی دارالحکومت میں ایک ڈیڑھ سالہ بچی اور ایک سات سالہ لڑکی کو بھی جنسی تشدد کا نشانہ بنادیا گیا۔
خیال رہے کہ بھارت میں یوم اطفال ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی یوم پیدائش (14نومبر1889)کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ انہیں’چاچا نہرو‘ کے نام سے بھی جانا جاتاہے۔ نہرو نے بھارت کے بچوں کے لیے ایک ایسے ترقی پسند ملک کا خواب دیکھا تھا، جہاں نوجوان صلاحیتوں کے ساتھ مکمل انصاف ہو سکےگا، تاہم آزادی کے ستر برس گزر جانے کے باوجود یہ خواب ہنوز شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔
لاکھوں پاکستانی بچوں کا بچپن مشقت کی نذر
بارہ جون کو منائے جانے والے ’چائلڈ لیبر‘ کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے بین الاقوامی ادارہ محنت آئی ایل او کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قریب چار ملین بچے محنت مزدوری پر مجبور ہیں اور ان کا بچپن مشقت کی نذر ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پاکستان میں بچوں سے لی جانے والی مشقت
آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں محنت مزدوری پر مجبور قریب چالیس لاکھ بچے یا تو کوڑا چنتے ہیں، سڑکوں پر چھوٹی موٹی چیزیں بیچتے ہیں، ریستورانوں میں کام کرتے ہیں یا پھر مختلف ورکشاپوں میں کام کرتے ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا پانچ سالہ عرفان مجید اپنے گیارہ سالہ بھائی کے ہمراہ اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں ایک ورکشاپ مکینک کے پاس دیہاڑی پر کام کرتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’بچے مزدوری نہ کریں تو گزارہ کیسے ہو؟‘
چھ سالہ گزشتہ دو برس سے تنویر مشتاق اپنے والد کے ساتھ گوشت کی ایک دکان پر کام کرتا ہے۔ تنویر کے والد عمر مشتاق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ عارف والا سے تعلق رکھتا ہے۔ مسلسل مہنگائی کے باعث اسے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی کام پر ڈالنا پڑا۔ اس کے بیٹوں کی طرح دو بیٹیاں بھی مختلف گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ’’میرے بچے بھی کام نہ کریں تو ہم سب کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
’میں نے خود ایسے کپڑے کبھی نہیں پہنے‘
ںور احمد اپنی عمر نہں جانتا۔ راولپنڈی میں ڈھوک پراچہ کے اس رہائشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ روزانہ اپنی ماں اور بھائی کے ہمراہ ویگن پر بیٹھ کر ریڈی میڈ شلوار کرتے بیچنے اسلام آباد آتا ہے۔ اس کے والد فوت ہو چکے ہیں اور دو بھائی اس سے چھوٹے بھی ہیں،’’میری بڑی خواہش ہے کہ کسی عید پر میں خود بھی ایسا ہی کوئی نیا شلوار کرتا پہنوں، جیسے میں بیچتا ہوں۔‘‘ یہ کم سن مزدور روزانہ چار سو روپے تک کما لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شدید گرمی میں کمائی کا ذریعہ دستی پنکھے
پروین اختر اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں اپنی پھوپھو کے ہمراہ رہتی ہے۔ اس کے والدین سرگودھا کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ اس کے چار اور بہن بھائی بھی ہیں۔ اس کی پھوپھو اسے مزدوری کرانے کے لیے سرگودھا سے اسلام آباد لائی تھی۔ پروین نے بتایا کہ یہ دستی پنکھے اس کی امی اور خالہ گاؤں سے بنا کر بھیجتی ہیں۔ پروین نے کہا کہ اس کا خواب ہے کہ وہ بھی اپنے گاؤں کی دیگر بچیوں کی طرح اسکول جائے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بالغ چھاؤں میں، بچے دھوپ میں
اسلام آباد میں ایک موٹر سائیکل مکینک کی ورکشاپ پر کام کرنے والے یہ بچے دھوپ کی تپش کو نظر انداز کیے اپنی دیہاڑی کی خاطر اپنے کام میں مگن ہیں۔ مہنگائی، گھریلو غربت، والدین کی بیماری یا پیٹ کی بھوک، ان بچوں کی مجبوریوں کے بہت سے نام ہیں، جو ان سے ان کا بچپن چھین کر ان کے ہاتھوں میں کوڑے کے تھیلے یا مختلف اوزار پکڑا دیتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ایک روٹی کے لیے لوہے کے کئی ٹکڑے
سڑکوں پر سارا دن گرمی، دھوپ یا بارش سے بے نیاز ایسے بچے کوڑے کرکٹ میں سے لوہے کے ٹکڑے، پلاسٹک اور دیگر ایسی چیزیں تلاش کرتے ہیں، جنہیں بیچ کر وہ ہر شام کچھ رقم اپنے ساتھ گھر لا جا سکیں۔ اس تصویر میں چار بچے اور دو ننھی منی بچیاں ایک میدان سے وہاں گری ہوئی لوہے کی کیلیں جمع کر رہے ہیں۔ یہ سوال بہت تکلیف دہ ہو گا کہ لوہے کے کتنے ٹکڑے جمع کیے جائیں تو ایک روٹی خریدی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
والدین سے چوڑیاں مانگنے کی عمر میں چوڑیاں بیچنے والی
اس ننھی سی بچی نے اپنا نام فیروزاں (فیروزہ) بتایا اور اسے چوڑیاں بیچتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ فیروزہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پہلے اس کی والدہ گھر گھر جا کر چوڑیاں بیچتی تھی لیکن گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ اب کراچی کمپنی نامی علاقے میں بس اڈے کے قریب فیروزہ اور اس کی والدہ زمین پر چادر بچھا کر چوڑیاں بیچتی ہیں۔ باقی مہینوں کی نسبت عید سے پہلے رمضان میں اس ماں بیٹی کی روزانہ آمدنی زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’اب ڈر نہیں لگتا‘
سات سالہ عمر خلیل ایک ایسی دکان پر پھل بیچتا ہے، جو اس کا والد ہر روز زمین پر لگاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پہلے اس کا والد جب اسے دکان پر چھوڑ کر اکثر پھل لینے منڈی چلا جاتا تھا، تو اسے بہت ڈر لگتا تھا۔ ’’اب مجھے اکیلے دکان چلانے کی عادت ہو گئی ہے اور ڈر بالکل نہیں لگتا۔‘‘ محض سات برس کی عمر میں حالات نے اس بچے کو ایسا دکاندار بنا دیا ہے، جو اکیلا بھی بڑی خود اعتمادی سے گاہکوں سے لین دین کر لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسکول کے بعد وین پر پھل فروشی
چودہ سالہ محمد رفیق آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ اس کا والد ایک وین پر منڈی سے کوئی نہ کوئی پھل لا کر بیچتا ہے۔ شام کے وقت محمد رفیق اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق ہے لیکن ڈاکٹری کی تعلیم بہت مہنگی ہے۔ رفیق کے والد نے کہا، ’’میں اپنے بیٹے کو ضرور ڈاکٹر بناؤں گا۔ میں اس کا خواب ہر صورت میں پورا کروں گا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
مستقبل کی مائیں در بدر
گرمی سردی کی پرواہ کیے بغیر کوڑے کا تھیلا کندھوں پر ڈالے یہ معصوم بچیاں دن بھر سڑکوں کی خاک چھانتی ہیں۔ جہاں بھوک پیاس لگی، کسی کا دروازہ کھٹکھٹایا، کہیں سے کچھ مل گیا تو ٹھیک، ورنہ آگے چل پڑیں۔ ان تینوں بچیوں کا تعلق اسلام آباد کے مضافات میں ایک کچی بستی سے ہے۔ گرمیوں کی تیز دھوپ میں ان کے چہرے چمک رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ سوچ ہی تکلیف دینے لگتی ہے کہ یہی بچیاں آنے والے کل کی مائیں ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’کام ٹھیک کرو، ورنہ دیہاڑی ضبط‘
موٹر مکینک کا کام سیکھنے والے گیارہ سالہ عبداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جس دکان پر وہ دیہاڑی پر کام کرتا ہے، وہ ورکشاپ اس کے ماموں کی ہے۔ اس کا والد اس کی والدہ کو طلاق دے چکا ہے اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنی نانی کے گھر رہتا ہے۔ عبداللہ نے بتایا، ’’ماموں بہت سخت آدمی ہیں، اگر کبھی کام ٹھیک نہ کروں تو مار پڑتی ہے۔ اس روز دیہاڑی کے سو روپے بھی نہیں ملتے۔ ایسی صورت میں ہم بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کھلونے خواب ہیں اور بھوک سچ
آئی نائن سیکٹر میں عید کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔ فٹ پاتھوں پر چھوٹے چھوٹے اسٹال لگا کر یا زمین پر کپڑا بچھا کر مختلف چیزیں بیچنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے خوانچہ فروشوں میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ بیچ کر زندگی کے تسلسل کو یقینی بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ شدید گرمی میں یہ بچے ایسے گاہکوں کے انتظار میں رہتے ہیں، جو ان سے بس کچھ نہ کچھ خرید لیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ساری دنیا ایک ڈبے میں
آٹھ سالہ محمد رفیق اپنی گتے کے ایک ڈبے میں بند دنیا سر پر اٹھائے پہلے جگہ جگہ گھومتا ہے۔ اب اسے راولپنڈی کی کمرشل مارکیٹ میں ہر روز ایک فٹ پاتھ پر چادر بچھا کر چیزیں بیچتے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ اس کی والدہ دو تین مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ محمد رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم کچی بستی میں رہتے ہیں۔ میری دو چھوٹی بہنیں بھی ہیں۔ میرے ابو اخبار بیچتے ہیں۔ ہم سب مل کر اپنا گھر چلاتے ہیں۔‘‘