1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوم دفاع: بچانے کو بچا کیا ہے؟

6 ستمبر 2023

چھ ستمبر پاکستان کا یوم دفاع اس بار گہری مایوسیوں، شدید انتشاراور عوام کے سامنے کھڑا زندگی کے مصائب و آلام کا ایک پہاڑ لیے آیا اور ان گنت سوالات چھوڑ کر گزر بھی جائے گا۔ لیکن سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ان کا جواب کس کے پاس ہے؟

تصویر: Philipp Böll/DW

اس سال چھ ستمبر سے چند دنوں پہلے سے سوشل میڈیا پر پاکستان کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی زبوں حالی پر عوام کی آہ و بُکا کی ہر طرف سے ایسی گونج سنائی دے رہی تھی، جس کی وجہ سے بہت سے پاکستانی، جن میں بذات خود میں بھی شامل ہوں، شاید یہ بھول گئے کہ چھ ستمبر ''یوم دفاع‘‘ بڑے 'عقیدت و احترام‘ سے منانے کا دن ہے۔ ایک ویڈیو کلپ جو بہت وائرل ہوئی، وہ مجھ تک بھی پہنچی، اُس میں پڑوسی مگر پاکستان کے دیرینہ '' دشمن ملک‘‘ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے دھواں دار بیان نے دراصل مجھے یاد دلایا کہ چھ ستمبر آگیا ہے اور اس دن کو پاکستانی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔

نریندر مودی کی تقریر کے اس کلپ میں وہ بہت ہی ولولہ انگیز اور پُر جوش انداز میں پاکستان کے ارباب اختیار کو چیلنج کر رہے ہیں۔ مودی کہہ رہے ہیں،'' میں پاکستانی عوام سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کے حکمران آپ کو گمراہ کرنے کے لیے ہزاروں سال سے ہندوستان سے لڑنے کی باتیں کرتے ہیں۔ آج دلی میں ایسی سرکار بیٹھی ہے جو اس چیلنج کو لینے کے لیے، پاکستان سے لڑنے کے لیے تیار ہے۔‘‘ نریندر مودی نے تاہم اپنی تقریر میں اس لڑائی یا جنگ کے بارے میں ایک ایسا نقطہ اُٹھایا جو شاید پاکستان کے اکثریتی عوام کے دل کو لگنے والی بات تھی۔ بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا،'' آئیے ہم اپنے دیش میں اور آپ اپنے ملک میں غریبی ختم کرنے کا کام کریں۔ ہم دونوں  یہ جنگ لڑیں۔ دیکھتے ہیں اپنے دیش میں سب سے پہلے غریبی کون ختم کرتا ہے۔‘‘

میرے خیال میں نریندر مودی نے پاکستان کی کُل آبادی کے 65 فیصد سے زیادہ پر مشتمل نوجوان طبقے کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا،'' پاکستان کے نوجوانوں آؤ بے روزگاری کے خاتمے کی لڑائی لڑیں۔ دیکھتے ہیں پہلے اس جنگ میں کون جیتا ہے۔‘‘

نریندر مودی گو کہ اپنے ملک میں انتہا پسند ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے اور مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور استحصال کے ضمن میں ملک کے اندر اور بھارت سے باہر بھی کڑی تنقید کے نشانے پر ہیں تاہم میرے خیال میں ان کے ایک اس بیان نے کم از کم پاکستان کے اکثریتی عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

چھ ستمبر 2023 ء میں پاکستان کی قریب 238 ملین سے زائد نفوس پر مشتمل آبادی کی اکثریت بجلی، اشیائے خورد و نوش، تعلیم اور روز مرہ زندگی کی دیگر ضروریات کو پورا کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ملک میں غربت کے سبب خود کشیوں کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ عوام خود کو ایک اندھے کنویں میں محسوس کر رہے ہیں۔ ایسے میں افواج پاکستان اور حکومت سے عوام کا استفسار یہ ہے کہ اگر وہ ملک کے اندرونی بحران اور انتشار کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو بیرونی طاقتوں کا مقابلہ کیسے کریں گے؟

آج پاکستان کے حالات اس نہج پر آ چُکے ہیں کہ ملکی سرحدوں کے محافظوں کے سربراہ کو ملک کے تاجر طبقے سے ملاقات کرنا پڑ رہی ہے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے تاجر برادری کو یقین دلایا کہ ریاستی ادارے اب ملکی اقتصادی حالت بہتر کرنے پر بھرپور توجہ دیں گے۔ گویا اب تک ملکی معیشت اور اقتصادیات پر سب سے بڑا بوجھ جن اخراجات کا رہا ہے، ان سے متعلق ملک کے سب سے اہم ادارے ''فوج‘‘ کے سربراہ اب ملکی معیشت کی بہتری پر زور دینے کو اپنا اولین فریضہ سمجھ رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ جنرل منیر کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ملکی معیشت ’غیر ملکی بیساکھیوں کی بجائے‘ اپنے پیروں پر کھڑی ہو اور عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔

 انہوں نے اپنے حالیہ دورہِ مشرق وسطیٰ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں نے پاکستان میں 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی ہے۔ نیز یہ بھی کہا کہ وہ  قطر اور بحرین بھی جائیں گے اور وہاں سے بھی اسی قسم کی یقین دہانیاں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

کسی  نے جنرل منیر سے یہ سوال کرنے کی ہمت نہیں کی کہ وہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کی طرف سے پاکستان کی امداد پر پس و پیش سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ اس مسئلے کا براہ راست تعلق ملک کی لاقانونیت اور بدعنوانی کی گہری جڑوں سے ہے، جس کو اکھاڑنا جنرل منیر کے بس میں نظر نہیں آتا۔ ایسا ممکن ہوتا تو 1965ء کے بعد سے آج تک ملک میں کرپشن کی جڑیں مزید گہری ہو کر نہ پھیلتیں۔ اس بحث کو چھیڑنا کہیں سے مناسب نہیں کیونکہ'' اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔‘‘  

6 ستمبر کو پاکستان کا ایک تاریخی دن کہا جاتا ہے۔ 1965ء میں اُس وقت جب پڑوسی ملک بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا اور افواج پاکستان نے نہ صرف ملک کا دفاع کیا بلکہ 'شجاعت و بہادری‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس جنگ میں فوج 'سرخرو‘ ہوئی تھی۔ پاکستان کے عوام نے تب سے اب تک افواج پاکستان کی 'عظمت و جرات‘  کو ہمیشہ سلام پیش کیا۔ ملک و قوم کی دفاع کرنے والوں کو معاشرے کے ہر طبقے پر فوقیت دی۔ یہاں تک کہ گھر گھر صرف فوج اور فوجیوں کے استقلال، ان کی خدمات ان کی قربانیوں کے چرچے ہوتے رہتے اور آنے والی نسلوں کو اسکولوں، کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی ادارں سے لے کر گھروں میں بھی ایک ہی سبق پڑھایا جاتا، کہ ملک و قوم کی دفاع اور ترقی کی ضامن صرف افواج پاکستان ہیں اور یہ کہ اب تک پاکستان نے جتنی جنگیں لڑیں وہ ملک کو قوم کے لیے انتہائی ضروری اور باعث افتخار تھی۔ اس کے باوجود 1965ء  کی جنگ کے اٹھاون سال بعد آج خود پاکستان کے ماہرین و مبصرین اس جنگ کی معاشی اور معاشرتی اثرات پر بحث کر رہے ہیں۔

پاکستان کے دانشوروں کا  ایک محدود طبقہ ماضی کے واقعات کا جائزہ لیتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان  کے بحث و مباحثے کے نتیجے میں بہت سے نئے اور اہم پہلو اجاگر ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ پاکستان نے جتنی جنگیں لڑیں اور ان میں جو سپاہی ہلاک ہوئے، کیا انہیں بغیر سوچے سمجھے جنگوں میں نہیں جھونکا گیا تھا؟ کیا جذبہ حب الوطنی کا اظہار صرف میدان جنگ میں ہی کیا جانا چاہیے؟ 

قوم ''راہ حق کے شہیدوں‘‘ کو سلام کہنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہے تاہم اس راہ حق کا تعین کون اور کیسے کرتا ہے، اس پر پاکستان کے پوری قوم کے مستقبل کا انحصار ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں