ہر سال کی طرح اس برس بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے۔ یہ دن ایسے موقع پر منایا جا رہا ہے جب پاکستان میں مزدوروں کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے کی اب بھی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
اشتہار
موسم کی شدتوں میں اوقات کار اور اجرت سے بڑھ کر محنت مشقت کا بوجھ اٹھاتے مزدوروں کے لیے اس دن کو منانے کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ اس محنت کش طبقے کے استحصال کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی جائے بلکہ عملی اقدامات بھی کیے جائیں۔ تاہم پاکستان میں ہر برس یوم مئی زور و شور سے منانے کے باوجود ملک کا یہ طبقہ اب بھی کئی بنیادی حقوق سے محروم ہے۔
ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر منصور کہتے ہیں کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود پاکستان میں مزدوروں کے حالات اور کام کاج کی صورتحال میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’حکومت اس پر بات تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتی۔ یہاں کتنے ہی حادثات ہو چکے ہیں مثلاﹰ علی انٹرپرائز کا حادثہ ہوا، شپ بریکنگ کا اتنا بڑا حادثہ ہوا جس میں کئی لوگ جان سے گئے، کانوں میں مسلسل حادثات ہو رہے ہیں۔ پھر گارمنٹس اور ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں روز ہی کوئی نا کوئی چھوٹا بڑاحادثہ پیش آ رہا ہے لیکن ابھی تک کوئی ايسی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی جس پر کہا جا سکے کہ پاکستان کے محنت کشوں کے حالات کو بہتر کرنے کے لیے کبھی سوچا بھی گیا ہے۔‘‘
ناصر منصور کہتے ہیں کہ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ مانٹرنگ کا کوئی سسٹم موجود نہیں، ’’ریاست اور جو بھی نئی حکومت آتی ہے، اس کی ترجیحات میں مزدوروں کے حقوق شامل نہیں۔ زدوسری بات یہ کہ ہماری ٹریڈ یونینز بہت کمزور ہیں۔ پاکستان میں جمہوری ڈھانچہ کمزور ہونے کی وجہ سے جب بھی کوئی فوجی حکومت آئی اس نے ٹریڈ یونین پر حملہ کیا ہے۔‘‘
پاکستان کے ایک کروڑ مشقتی بچے
پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانا قانونا منع ہے لیکن یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق آج بھی قریب ایک کروڑ پاکستانی بچے زندہ رہنے کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تعداد ملکی آبادی کا پانچ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
معذور کمہار کا محنتی بیٹا
غلام حسین کا والد ٹانگوں سے معذور ہے۔ باپ گھر میں مٹی کے برتن بناتا ہے، جنہیں اپنی ریڑھی پر بیچنے کے لیے بیٹا ہر روز صبح سویرے گھر سے نکلتا ہے۔ غلام حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے اکثر پانچ چھ سو روپے روزانہ تک آمدنی ہوتی ہے، کبھی کبھی ایک ہزار روپے تک بھی۔ لیکن سارا دن سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد کبھی کبھار وہ رات کو خالی ہاتھ بھی گھر لوٹتا ہے، تب وہ اور اس کے گھر والے بہت اداس ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تعلیم کے بجائے تربوز فروشی
اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں تربوز بیچنے والے یہ دونوں بھائی کبھی اسکول نہیں گئے۔ بڑا لیاقت بیگ پانچ سو روپے دیہاڑی پر یہ کام کرتا ہے اور چھوٹا منصور بیگ دو سو روپے یومیہ پر۔ وہ تربوز بیچیں یا کوئی دوسرا پھل، گرمی ہو یا سردی، انہیں سوائے اپنی روزی کمانے کے کسی دوسری چیز کا ہوش نہیں ہوتا۔ لیاقت نے بتایا کہ اس کے گھرانے کی گزر بسر ان دونوں کم سن بھائیوں کی محنت کی کمائی پر ہی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اس تصویر کی سب سے تکلیف دہ بات کیا ہے؟
ایک معصوم بچہ جو ایک کم سن مزدور بھی ہے۔ نسوار اور نئی پشاوری چپل بیچنے کے ساتھ ساتھ ایک غریب گھرانے کا یہ لڑکا جوتے اور بیگ وغیرہ بھی مرمت کرتا ہے۔ کسی گاہک کے انتظار میں کسی گہری سوچ میں گم اس بچے کی تصویر کا سب سے تکلیف دہ پہلو دائیں طرف کونے میں نظر آنے والی اس کی کاپی ہے۔ جسے اس عمر میں اسکول میں زیر تعلیم ہونا چاہیے تھا، وہ فٹ پاتھ پر جوتے مرمت کر رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسکول بیگ کے بجائے دھوپ کے چشمے
اس چودہ سالہ لڑکے محمد حنیف کا تعلق پشاور سے ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے وہ اپنے والدین کے ساتھ اسلام آباد رہائش پذیر ہے۔ پہلے وہ اسکول جاتا تھا، لیکن استاد کے ہاتھوں مار پیٹ کے باعث اسے اسکول سے نفرت ہو گئی اور وہ دوسری جماعت سے ہی اسکول سے بھاگ گیا، وہ چند سال تک مکئی کے بھنے ہوئے دانوں کی ریڑھی لگا چکا ہے مگر اب دھوپ کے چشمے بیچتا ہے، جو اس کے نزدیک صاف ستھرا کام ہے اور منافع بھی قدرے زیادہ۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سب کچھ کہہ دینے والی ایک نظر
آٹھ سالہ بخشو جان، جو اس وقت سے ایسے رنگا رنگ غبارے بیچ رہا ہے، حالانکہ اس کی اپنی عمر ابھی ایسے غباروں سے کھیلنے کی ہے۔ بخشو نے بتایا کہ وہ اور اس کا پورا خاندان یہ غبارے بیچتے ہیں، جو لوگ اپنے بچوں کے لیے خرید بھی لیتے ہیں اور اکثر بغیر کچھ خریدے ہوئے اسے کچھ پیسے بھی دے دیتے ہیں۔ بخشو جان جس طرح اپنے غباروں کو دیکھ رہا ہے، لگتا ہے جیسے اس سوچ میں ہو، ’بیچ دوں یا اپنے ہی پاس رکھ لوں‘۔
تصویر: DW/I. Jabeen
عمر بارہ برس، کام کا تجربہ چار سال
اسلام آباد کی ایک مقامی مارکیٹ میں جوتوں کی ایک دکان پر سیلز بوائے کا کام کرنے والے بارہ سالہ جاوید چوہدری، جینز پہنے ہوئے، کو یہ کام کرتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ جاوید کے بقول اس کے والد کا کافی عرصہ قبل انتقال ہو گیا تھا اور والدہ مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ جاوید نے بتایا، ’’کئی برسوں سے ہم نے عید پر بھی نئے کپڑے نہیں بنائے۔ مہنگائی بہت ہے اور ہمارا گزارہ پہلے ہی بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
جو خود پہننا چاہیے، وہ بیچنے پر مجبور
سات سالہ وقاص احمد راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار کا رہائشی ہے اور وہیں ایک اسٹال پر ریڈی میڈ کپڑے بیچتا ہے۔ گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے وہ بار بار ’ہر سوٹ، سو روپے‘ کی آواز لگاتا ہے۔ وقاص نے ڈی دبلیو کو بتایا کہ وہ یہ کام دو سال سے کر رہا ہے اور کبھی اسکول نہیں گیا۔ ’’ہمارے خاندان کا کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا۔ سب چھوٹی عمر سے ہی اسٹال لگاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
ایک بالغ سیلز مین اور دو ’چھوٹے‘
راولپنڈی میں خواتین کے لیے گرمیوں کے ڈوپٹوں کی ایک دکان، جس میں ایک بالغ سیلز مین اور اس کے دو کم سن معاون دیکھے جا سکتے ہیں۔ بچے جن کے اسکول کے بعد کھیلے کودنے کے دن تھے، خواتین کے کڑھائی والے ڈوپٹے بیچنے میں مدد کرتے ہوئے۔ اکثر غریب والدین اپنے چھوٹے بچوں کو سو دو سو روپے روزانہ کے بدلے ایسی دکانوں پر دن بھر کام کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گھروں میں صفائی کرنے والی کم سن بچیاں
اسلام آباد کی ایک کچی آبادی کی رہائشی یہ بچی اپنے گھر سے دور چند گھروں میں برتن اور کپڑے دھونے کے علاوہ صفائی کا کام بھی کرتی ہے۔ دن کے پہلے حصے میں ایک پرائمری اسکول میں دوسری جماعت کی طالبہ اور سہ پہر کے وقت ایک ایسی کم سن ایماندار گھریلو ملازمہ، جو جانتی ہے کہ اس کے والدین کی مجبوری ہے کہ وہ بھی محنت کر کے کچھ کمائے کچھ اور اس کے خاندان کا گزارہ ہو۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گرمیوں میں برف، سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی
اسلام آباد میں ایک سڑک کے کنارے محنت کرنے والے یہ دونوں نابالغ بھائی گرمیوں میں یہاں برف بیچتے ہیں اور سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی۔ پاکستان کے ایسے کئی ملین بچوں کو یہ علم ہی نہیں کہ دنیا میں ہر سال بارہ جون کو بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف کوئی عالمی دن منایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان پاکستانیوں کے روشن مستقبل کے لیے حکومت کیا اپنے تمام فرائض پورے کر چکی ہے؟
تصویر: DW/I. Jabeen
مڈل اسکول کے بجائے موٹرسائیکلوں کی ورکشاپ
ایک موٹر سائیکل ورکشاپ پر کام کرنے والا یہ بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے کسی مڈل اسکول کا اسٹوڈنٹ ہونا چاہیے تھا لیکن غربت اور بھوک کے خلاف جنگ ایسے بچوں کے والدین کو اپنی اولاد کو ایسے کاموں پر ڈالے دینے پر مجبور کر دیتی ہے، جہاں سے وہ روزانہ سو دو سو روپے کما کر لا سکیں۔ وہ بچے جو تعلیم یافتہ پیشہ ور ماہرین بن سکتے ہیں، انہیں موٹر سائیکل مکینک یا خوانچہ فروش بنا دینا معاشرے کے لیے گھاٹے ہی کا سودا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اس بچے کے ساتھ ناانصافی کا ذمے دار کون؟
محض چند برس کی عمر میں ریڑھی پر پھل بیچنے والے اس بچے کو تو موسم کی سختیوں سے بھی بچایا جانا چاہیے، بجائے اس کے کہ اس کا آج اور آنے والا کل دونوں محرومی کی داستان بن جائیں۔ اس بچے نے بتایا کہ اسے یاد نہیں کہ اس نے اس طرح پھل بیچنے کے علاوہ بھی کبھی کچھ کیا ہو۔ وہ اسکول جانا چاہتا تھا۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکا، تو اس کی اس محرومی کا ذمے دار کون ہے؟
تصویر: DW/I. Jabeen
12 تصاویر1 | 12
پاکستان میں 62 ملین کے قریب مزدور ہیں جن میں سے 70 فیصد ٹیکسٹائل، کاٹن اور گارمنٹ کے شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ ناصر منصور کے مطابق ان میں سے ایک فیصد ورکرز بھی ٹریڈ یونین میں نہیں ہیں۔ ’’اب اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی معیشت کی بنیاد ٹیکسٹائل اور گارمنٹس سيکٹرز ہيں۔ یہاں تک کہ پاکستان کی برآمدات ميں 70 فیصد حصہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کا ہے۔ غیر ملکی زر مبادلہ بھی اسی شعبے کی مد میں آتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ مزدوروں کے حوالے سے اسی شعبے کی حالت ابتر ہے۔ یہاں بڑے بڑے ملکی اور غیر ملکی برانڈز ہیں لیکن نوآبادیاتی کے وقت جو یہاں مزدوروں کو حقوق حاصل تھے، وہ تک پلانٹ کی یا کارخانوں کی سطح پر حاصل نہیں رہے۔‘‘
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی لیبر قوانین موجود ہیں تاہم ان پر عمل نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں مزدوروں کی بڑی تعداد استحصال،جبری مشقت اور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ اس حوالے سے ناصر منصور بتاتے ہیں، ’’ 95 فیصد ملازمین جب نوکری پر آتے ہیں، تو ان کو اپائنٹمنٹ لیٹر تک نہیں دیا جاتا۔ یعنی ان کے پاس کوئی ثبوت ہی نہیں ہوتا کہ وہ جن کے لیے کام کر رہے ہیں، وہ اس جگہ پر ملازم ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب ان کو نکالا جاتا ہے اور وہ کسی بھی لیبر ڈیپارٹمنٹ یا لیبر کورٹ میں جا کر یہ دعویٰ دائر کرنا چاہیں کہ ان کو غیر قانونی طور پر برخاست کیا گیا ہے تو وہ یہ ثابت ہی نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ 97 فیصد فیکٹریاں ایسی ہیں جہاں مزدوروں کو کم سے کم مقرر کی گئی اجرت تک نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں غیر ہنرمند مزدور کے لیے کم سے کم اجرت 15 ہزار مقرر ہے جو کہ نہیں دی جاتی۔ جبکہ ہنر مند افراد کے لیے اس سے زیادہ تنخواہ مقرر کی گئی ہے لیکن ان کو غیر ہنرمند مزدور وں کے لیے مقرر کردہ اجرت کے برابر تنخواہ دی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ کارخانوں میں نو، دس بلکہ 12 سے 15 گھنٹے بھی کام لیا جاتا ہے جبکہ مقرر کردہ اوقات کار 8 گھنٹے ہیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار چھٹیوں کا بھی نظام نہیں اور مزدوروں کو اتوار کے روز بھی کام پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ‘‘
اس ساری صورتحال کے باوجود ناصر منصور کہتے ہیں کہ مزدور طبقے کے حالات میں بہتری کے لیے کوششيں کی جا رہی ہیں اور ان میں تھوڑی بہت کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ ان میں نئے قوانین شامل ہیں جبکہ کچھ معاملات پر ابھی کام کیا جا رہا ہے۔ گو کہ اس وقت محنت کش طبقے کی صورتحال مایوس کن نظر آتی ہے تاہم اس میں بہتری کی امید ابھی باقی ہے۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں اور جان پر کھیلتے کان کن