یونانی جزائر پر مہاجر بچوں کی تعداد اور مشکلات دونوں بڑھ گئے
21 ستمبر 2018
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یونانی جزائر پہنچنے والے تارکین وطن اور مہاجر بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ رواں برس اب تک سات ہزار مہاجرین ان جزیروں پر اتر چکے ہیں۔
اشتہار
بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ یونانی جزائر پر مہاجر کیمپوں میں موجود بچے انتہائی ناقص حالات میں رہ رہے ہیں جو اُن پر نفسیاتی دباؤ میں اضافے کا سبب بھی ہے اور انہیں تشدد کی جانب مائل کر سکتا ہے۔ یونیسیف نے مطالبہ کیا ہے کہ مہاجر بچوں کو فوری طور پر ان جزائر سے محفوظ جگہوں پر منتقل کیا جائے۔
اس ہفتے کے آغاز میں امدادی تنظیم ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے متنبہ کیا تھا کہ موریا جزیرے پر مقیم کئی بچوں نے خود کشی یا پھر اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ دیگر بچوں کو ذہنی دباؤ، اور نفسیاتی بیماریوں کا سامنا ہے۔
یونیسیف کے مطابق رواں سال جنوری سے لے کر اگست تک ہر ماہ قریب ساڑھے آٹھ سو بچے سمندر کا خطرناک سفر کر کے یونانی جزائر پر پہنچے ہیں۔ گزشتہ برس یہ تعداد موجودہ تعداد کا بتیس فیصد تھی۔ عالمی ادارے نے اس اضافے کی کوئی ٹھوس وجہ تو نہیں بتائی البتہ یہ کہا کہ ان مہاجر بچوں کا تعلق شورش زدہ ممالک سے ہے۔
یونان کے لیسبوس اور سیموس جزائر کا رواں ہفتے دورہ کرنے والے یونیسیف کے نمائندے لوسیو میلاندری نے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ آنے والے مہینوں میں مہاجرین کی آمد میں مزید اضافہ ہو گا جس کے باعث انہیں مہیا کی جانے والی سہولتیں کافی نہ ہوں گی۔
میلاندری کے مطابق،’’ حالات زیادہ خطرناک اور خراب ہو رہے ہیں۔‘‘
لیسبوس کے موریا کیمپ میں اس وقت نو ہزار کے قریب تارکین وطن مقیم ہیں جبکہ یہاں صرف تین ہزار افراد کے رہنے کی گنجائش ہے۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ اس کیمپ میں بعض مہاجر بچوں کو رہتے ہوئے ایک سال سے بھی زیادہ کا وقت ہو گیا ہے جبکہ یونانی قانون کے تحت اس قیام کو پچیس دن سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
یونان سن 2015 سے مہاجرین کی آمد کا مرکزی ملک رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق مشرق وسطی اور افریقی ممالک سے ہے۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ اس وقت مختلف یونانی جزائر پر رہنے والے تارکین وطن کی تعداد یس ہزار پانچ سو کے قریب ہے جن میں سے بیشتر شام، عراق اور افغانستان سے ہجرت کر کے آئے ہیں۔
صائمہ حیدر/ ش ح / نیوز ایجنسی
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘