یونانی جزیرے ساموس میں زیتون کے پیڑوں کے درمیان لگائے گئے درجنوں خیموں میں مہاجرین نہایت کسمپرسی کا شکار ہیں، جہاں بچوں کے پیروں میں ٹوٹے جوتے اور آس پاس پھیلے کچرے کا تغفن واضح محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہاں ایسے بہت ہی کم مہاجرین ہیں، جن کے پیروں میں موزے نظر آتے ہیں۔ یہ افراد بحیرہء ایجیئن عبور کر کے اس جزیرے تک تو پہنچ گئے، تاہم ساموس سمیت متعدد یونانی جزائر پر موجود ہزاروں مہاجرین نہایت خستہ صورت حال کا شکار ہیں۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والے نوین رحمانی اپنی بیوی کے ہم راہ اس جزیرے پر پہنچے ہیں، تاہم یہ صورت حال ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ ’’ہم گزشتہ شب ایک چھوٹی سی کشتی کے ذریعے یہاں پہنچے ہیں۔ اس کشتی پر 42 افراد سوار تھے۔‘‘
افغانستان میں ماضی میں امریکی فوج کے لیے بہ طور مترجم کام کرنے والے رحمانی نے مزید بتایا، ’’کچھ چینی باشندوں نے ہمیں دس یورو میں ایک ٹینٹ فروخت کیا۔‘‘
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
اے ایف پی کے مطابق ساموس جزیرے پر واقع اس مہاجر بستی میں شام، عراق، افغانستان اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے قریب تین سو تارکین وطن موجود ہیں۔ خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یونان آنے والوں کی تعداد میں ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین UNHCR کے مطابق ستمبر کے مہینے میں یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد پانچ ہزار رہی، جو گزشتہ برس اسی ماہ آنے والے مہاجرین کی تعداد کے اعتبار سے 35 فیصد زائد تھی۔
یورپ جانے کا شوق، ’پاکستانی مہاجرین بھی پھنس گئے‘
02:38
حکام کا کہنا ہے کہ یونانی جزائر کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے مہاجر بستیوں پر شدید دباؤ ہے اور امدادی اداروں کو بھی اپنی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق رواں برس جنوری تا 20 اگست یونانی جزائر پر پہنچنے والے تارکین وطن کی مجموعی تعداد تیرہ ہزار سے زائد رہی۔
یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس مارچ میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یونانی جزائر کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔ یہ وہی راستہ تھا، جس کے ذریعے سن 2015 میں ایک ملین سے زائد افراد یورپ پہنچے تھے۔