یونانی جزیرے لیسبوس پر ہزاروں مہاجرین نے یورپی یونین کی مہاجرین کی بابت سخت پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ کیا، جو پرتشدد رنگ بھی اختیار کر گیا۔ مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔
اشتہار
ان مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ یورپی یونین کی وہ پالیسی ختم کی جائے، جس کے تحت ان افراد کو یونانی جزیرے پر ہی محدود کر دیا گیا ہے۔ مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ اس جزیرے پر کسی بھی وقت پُرتشدد مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں۔
یونانی جزیرے لیسبوس کا موریا کیمپ، مہاجرین پر کیا گزر رہی ہے
لیسبوس کے یونانی جزیرے پر پھنسے ہوئے تارکین وطن کو حالات مزید خراب ہونے کی توقع ہے۔ انسانی بنیادوں پر سہولیات مہیا کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیمیں یا تو اپنا کام سمیٹ کر جانے کی تیاری میں ہیں یا پہلے ہی رخصت ہو چکی ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ایجئین میں پھنسے مہاجرین
مہاجرین کی مد میں نجی فلاحی تنظیموں کو یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ رواں برس اگست میں ختم ہو گئی تھی۔ تب سے یونانی حکومت ہی جزائر پر مقیم پناہ گزینوں کی تنہا دیکھ بھال کر رہی ہے۔ تاہم نہ تو ان مہاجرین کی منتقلی کا کوئی واضح پلان ہے اور نہ ہی اب یہاں مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات میں کوئی تسلسل رہ گیا ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
نہ یہاں نہ وہاں
موریا کا مہاجر کیمپ اور تارکین وطن کے لیے بنائے گئے دوسرے استقبالیہ مراکز میں اب مہاجرین کے نئے گروپوں کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تناؤ کی کیفیت بڑھ رہی ہےاور انفرادی سطح پر ہونے والے جھگڑے جلد ہی نسلی گروپوں کے درمیان سنجیدہ نوعیت کی لڑائی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
حفظان صحت کی سہولتیں
موریا کے باہر عارضی نوعیت کے غسل خانے کے باہر استعمال شدہ شیمپو اور پانی کی بوتلوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ موریا مہاجر کیمپ میں حفظان صحت کی سہولتوں کے فقدان کے باعث بہت سے لوگوں نے صفائی ستھرائی کے لیے دوسرے امکانات تلاش کرنے شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
فیصلے کا انتظار
اریٹیریا کے تارک وطن امان نے اپنے خیمے میں چائے یا پانی کا نہ پوچھنے پر معذرت کی ۔ وہ تین ماہ سے اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کا منتظر ہے۔ امان کا کہنا ہے کہ موریا کیمپ کے اندر کافی زیادہ مسائل ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
’ہم انسان ہیں‘
اس تصویر میں ایک افغان مہاجر موریا مہاجر کیمپ میں ابتر رہائش کی صورتحال کے خلاف احتجاج کے لیے پلے کارڈ بنا رہا ہے۔ احتجاج کرنے والے بیشتر پناہ گزین قریب ایک سال سے لیسبوس پر ہیں اور اپنی درخواستوں پر فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ معلومات کی کمی، ابتر رہائشی صورت حال اور افغانستان واپس بھیجے جانے کا خوف ان تارکین وطن کو مستقل وسوسوں میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
یونان بھی مجبور
لیسبوس کے افغان مہاجرین مجوزہ احتجاج پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے لیسبوس کے جزیرے پر سیاحوں کی آمد میں سن 2015 کی نسبت قریب 75 فیصد کم ہوئی ہے۔ یونان میں جاری اقتصادی بحران نے بھی جزیرے کے حالات پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ہر روز نئے تارکین وطن کی آمد
سن 2015 سے ہی مہاجرین پر لازم ہے کہ وہ اپنی پناہ کی درخواستوں پر حتمی فیصلے تک جزیرے پر رہیں گے۔ متعدد درخواستوں کو روکنے اور اپیل کے طویل عمل کے سبب تارکین وطن کی ایک مختصر تعداد کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
جمعرات کے روز یونان کے مظاہرین سے نمٹنے والی پولیس نے لیسبوس میں مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی۔ کچھ مقام پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ یہ مظاہرین مہاجرین کے بحران کے تناظر میں مرتب کی جانے والی یورپی پالیسی کے خلاف باہر نکلے تھے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ یہ پالیسیاں ان کے آبائی ممالک کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ مظاہرین نے پولیس کی ایک بس الٹنے کی کوشش کی، جب کہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسوگیس کا استعمال کیا گیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں کوئی ایک گھنٹے تک جاری رہیں، تاہم ان واقعات میں کوئی شخص زخمی نہیں ہوا اور نہ ہی کس شخص کو حراست میں لیا گیا۔ جمعرات کے روز لیسبوس جزیرے پر عام پڑتال تھی۔
سن 2016ء میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان مہاجرین کے حوالے سے معاہدہ ہونے سے قبل لیسبوس کا جزیرہ مہاجرین کی آمد کے سب بڑے مراکز میں سے ایک تھا۔ تاہم اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ یونانی جزائر پر پہنچنے والے تارکین وطن انہیں جزائر پر سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں، اگر وہ درخواست منظور ہو جائے، تو انہیں یونان کے کسی دوسرے علاقے میں جانے کی اجازت دی جائے، جب کہ دوسری صورت میں انہیں ترکی واپس بھیج دیا جائے۔
ایتھنز کا تھری اسٹار ہوٹل، اب مہاجرین کے پاس
تین سو سے زائد مہاجرین اور پناہ گزینوں نے یونانی دارالحکومت ایتھنز کے ایک سات منزلہ خالی ہوٹل کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن سٹی پلازہ ہوٹل میں داخل ہوئے اور اس پر قبضہ کر لیا۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
فیملی ہوٹل
سٹی پلازہ ہوٹل خالی پڑا تھا، مگر اپریل میں افغان، ایرانی، عراقی اور شامی مہاجرین اپنے اہل خانہ سمیت اس ہوٹل میں رہنے لگے۔ یہاں مقیم مہاجرین کے خاندان زیادہ تر بچوں اور معمر افراد کے ہم راہ ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
برسوں سے بند
یونانی اقتصادی بحران کے دوران اس ہوٹل کے مالک کو متعدد مالیاتی مسائل درپیش ہوئے، تو اس نے سٹی پلازہ ہوٹل بند کر کے یہ جائیداد بیچنے کی کوشش شروع کر دی۔ اب اس ہوٹل کے استقبالیہ پر مہاجرین کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ان کے کمروں کی چابیاں ان کے حوالے کی جاتی ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
ہوٹل میں منتقلی
ایک شامی خاندان جو سٹی پلازہ ہوٹل میں منتقل ہوا ہے۔ متعدد افراد اس مہاجر بستی سے اس ہوٹل میں منتقل ہوئے جو اس کیمپ کی دگرگوں اور ابتر صورت حال کی شکایت کرتے رہے ہیں۔ مہاجر بستی میں نہ نکاسیء آب کا کوئی درست انتظام تھا، نہ سر چھپانے کی کوئی مناسب جگہ اور نہ ہی معقول مقدار میں خوراک۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
صفائی کا خیال رکھیے
ہر روز یہاں بسنے والے مہاجرین کمروں اور اس ہوٹل کی عمارت کی صفائی کرتے ہیں۔ دو شامی بچے، دس سالہ سیزر اور سات سالہ سدرا ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جا جا کر مٹی، گرد اور دھول کو ختم کرنے میں مدد کرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
چھت کی تلاش
کمپیوٹر کے ماہر اور مترجم علی جعفانی کی تعلق افغانستان سے ہے۔ ان کی اہلیہ وجیہہ اور دو بیٹے بھی ان کے ساتھ ہیں۔ یہ افراد پہلے ایتھنز کے پرانے ہوائی اڈے میں پناہ گزین تھے، تاہم اب یہ خاندان اس ہوٹل میں آن مقیم ہوا ہے۔ جعفانی کا کہنا ہے، جب انہوں نے افغانستان سے سفر کا آغاز کیا تو سرحدیں کھلی ہوئی تھی، تاہم تین ہفتے بعد جب وہ یونان پہنچنے تو صورت حال تبدیل ہو چکی تھی اور وہ یونان میں پھنس کر رہ گئے۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
رضاکار بھی موجود
اطالوی رضاکار اور شامی مہاجرین مل کر اس ہوٹل کے باورچی خانے میں کھانا پکانے میں مصروف ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر یہاں خیرات کی گئی خوارک پہنچتی ہے اور یہاں موجود یہ افراد حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق کھانا پکا کر یہاں مقیم افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
کھانے کا وقت
ہوٹل کے کھانے کے مقام پر یہ کھانا پیش کیا جاتا ہے، جہاں متعدد شہریتوں کے حامل افراد مل کر اسے نوش کرتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
بچوں کا کمرہ
رضاکاروں نے ہوٹل میں ایک کمرہ بچوں کے مشاغل کے لیے بھی وقف کر رکھا ہے۔ بچے یونان میں موجود مہاجرین کا ایک بڑا حصہ ہیں اور یہی اس ہوٹل میں موجود مہاجرین اور ان کے بچوں کی تعداد کے تناسب سے بھی ظاہر ہے۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
اب وقت سونے کا ہے
فیضان داؤد تین برس کے ہیں اور ان کے بھائی راشد کی عمر سات برس ہے۔ یہ دونوں شام سے ہجرت کر کے یونان پہنچنے والے ایک خاندان کے ہمراہ ہیں۔ سٹی پلازہ پہنچنے سے پہلے، یہ ایک ایسی عمارت میں مقیم تھے، جہاں سو مہاجرین رہ رہے تھے جب کہ وہاں بیت الخلا صرف ایک تھا۔ یہاں اس خان دان کے پاس بیت الخلا اور جائے حمام اپنا ہے۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
9 تصاویر1 | 9
یہ بات اہم ہے کہ یونانی جزائر لیسبوس، کوس، ساموس، چیوس اور لیروس پر اس وقت قریب پندرہ ہزار تارکین وطن موجود ہیں اور ان کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی جاری ہے۔ تاہم اس دوران ان جزائر پر موجود مہاجر بستیوں میں تارکین وطن کی تعداد گنجائش سے کہیں زیادہ ہے اور حالات نہایت مخدوش ہیں۔
تارکین وطن کی حامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد اور ان پر فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے ان جزائر پر پھنسے تارکین وطن میں مایوسی پھیلتی جا رہی ہے جب کہ ان جزائر پر نئے تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے، جو مسائل میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔