یونانی جزیرے کے قریب تارکین وطن سے بھری کشتی سمندر میں غرق
10 اگست 2022
یونان کے مشہور تعطیلاتی جزیرے رہوڈز کے قریب تارکین وطن سے بھری ایک کشتی سمندر میں ڈوب گئی۔ اس کشتی میں سوار اور اٹلی پہنچنے کے خواہش مند تارکین وطن میں سے تقریباﹰ تیس کو بچا لیا گیا جبکہ درجنوں دیگر ابھی تک لاپتہ ہیں۔
اشتہار
یونانی دارالحکومت ایتھنز سے بدھ دس اگست کو ملنے والی رپورٹوں میں ملکی کوسٹ گارڈز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہ تارکین وطن ایک کھچا کھچ بھری ہوئی کشتی میں سوار تھے، جو خراب موسمی حالات کی وجہ سے سمندر میں ڈوب گئی۔ یہ حادثہ یونانی جزیرے رہوڈز سے جنوب کی طرف تقریباﹰ 40 سمندری میل کے فاصلے پر کھلے پانیوں میں پیش آیا۔
کوسٹ گارڈز کے ایک ترجمان نے ایک یونانی ریڈیو کو بتایا کہ اس کشتی کے سمندر میں ڈوب جانے کے بعد 29 افراد کو بچا لیا گیا۔ درجنوں افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ جن تارکین وطن کو یونانی کوسٹ گارڈز نے بچایا، انہوں نے بتایا کہ اس کشتی میں تقریباﹰ 80 افراد سوار تھے۔
ریسکیو کارروائیوں میں مشکلات
یونانی کوسٹ گارڈز نے بتایا کہ بحیرہ ایجیئن میں اس حادثے کے بعد لاپتہ ہو جانے والے تارکین وطن کی تلاش کے کام میں خراب موسمی حالات کے باعث کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ کشتی کے جن مسافروں کو کھلے سمندر سے ریسکیو کیا گیا، ان کا بچا لیا جانا کوسٹ گارڈز کی گشتی کشتیوں کے عملے اور یونانی بحریہ کے ایک جہاز کی وجہ سے ممکن ہو سکا، جو کچھ ہی دیر میں اس کشتی کی غرقابی کی جگہ پر پہنچ گئے تھے۔
اس کے علاوہ ان تارکین وطن کو بچانے میں یونانی کوسٹ گارڈز کے ایک ہیلی کاپٹر اور حادثے کی جگہ کے قریب سے گزرنے والے تین مال بردار بحری جہازوں نے بھی حصہ لیا۔
بچا لیے گئے زیادہ تر تارکین وطن افغان باشندے
یونانی ساحلی محافظوں کے مطابق ان تارکین وطن نے اپنا بہت پرخطر سمندری سفر ترکی میں انطالیا سے شروع کیا تھا اور اس کشتی کو انہیں بحیرہ ایجیئن سے ہوتے ہوئے اٹلی لے کر جانا تھا۔ جن 29 افراد کو بچا لیا گیا، وہ سب کے سب مختلف عمروں کے مرد ہیں۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق یونانی کوسٹ گارڈز نے بتایا کہ یہ تمام تارکین وطن افغان شہری ہیں۔ اس کے برعکس نیوز ایجنسی روئٹرز نے دیگر یونانی حکام کے حوالے سے بتایا کہ ان 29 تارکین وطن میں سے اکثریت کا تعلق افغانستان سے ہے مگر ان میں ایرانی اور عراقی شہری بھی شامل ہیں۔
ہجرت کے دوران پیش آنے والے ہلاکت خیز ترین واقعات
گزشتہ دو دہائیوں میں تنازعات، موسمیاتی تبدیلیوں اور اقتصادی مسائل کے باعث دنیا کے مختلف خطوں سے امیر ممالک کی طرف ہجرت جاری ہے۔ تارکین وطن کے ساتھ پیش آنے والے کچھ ہلاکت خیز ترین واقعات
تصویر: Gareth Fuller/PA/picture alliance
امریکہ، ایک ٹرک سے 50 تارکین وطن کی لاشیں برآمد
اس سال 27 جون کو امریکہ کے شہر سان انتونیو میں ایک لاوارث ٹرک میں سوار پچاس تارکین وطن ہلاک ہو گئے۔ انہیں شدید گرمی میں ٹرک کے اندر چھوڑ دیا گیا تھا۔
تصویر: Eric Gay/AP Photo/picture alliance
برطانیہ پہنچنے کی خواہش جان لیوا ثابت ہوئی
23 اکتوبر 2019ء کو ویتنام کے 39 تارکین وطن برطانیہ کے شہر ایسکس میں ایک ٹرک میں مردہ حالت میں پائے گئے۔ اس واقعہ میں ملوث چار افراد کو قتل کے جرم میں سزا دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Grant
سان انتونیو کا دردناک حادثہ
23 جولائی 2017ء میں سان انتونیو کی شدید گرمی میں سپر مارکیٹ وال مارٹ کے احاطے میں پارک ایک ٹرک میں 8 تارکین وطن مردہ حالت میں ملے۔ دیگر دو بعد میں ہسپتال میں ہلاک ہو گئے۔ ٹرک کے ڈرائیور کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
تصویر: Reuters/R. Whitehouse
افریقی تارکین وطن کی ہلاکتیں
20 فروری 2017ء میں ایک شپنگ کنٹینر میں 13 افریقی تارکین وطن دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ کنٹینر لیبیا کے ایک شہر سے دوسرے شہر لے جایا جا رہا تھا۔ زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق مالی سے تھا۔ اس کنٹینر میں کل 69 تارکین وطن سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
ستر سے زائد ہلاکتیں
27 اگست 2015ء کو آسٹریا کی پولیس کو ایک لاوارث ٹرک ملا۔ اس ٹرک میں 71 تارکین وطن مردہ حالت میں موجود تھے۔ ہلاک شدگان میں آٹھ بچے بھی شامل تھے۔ ان تارکین وطن افراد کا تعلق افغانستان، شام اور عراق سے تھا۔ یہ ٹرک ہنگری سے آسٹریا پہنچایا گیا تھا۔
تصویر: Robert Jaeger/AFP
افغان مہاجرین کی پاکستان کے ذریعے مہاجرت کی کوشش
4 اپریل 2009ء کو جنوب مغربی پاکستان میں ایک کنٹینر میں 35 افغان تارکین وطن کی لاشیں ملیں۔ انتظامیہ کے مطابق اس کنٹینر میں ایک سو سے زائد افراد سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Gulfam
میانمار کے مہاجرین
9 اپریل 2008ء کو تھائی لینڈ سے ایک ایئرٹائٹ فریزر والے ٹرک سے 54 تارکین وطن افراد کی لاشیں ملیں۔ ان سب کا تعلق میانمار سے تھا۔
تصویر: AFP
ٹیکساس میں ہلاکتیں
14 مئی 2003ء کو 19 تارکین وطن جنوبی ٹیکساس سے ہوسٹن کی طرف روانہ تھے۔ اس دوران شدید گرمی کے باعث یہ افراد اسی ٹرک میں دم توڑ گئے۔
تصویر: William Luther/San Antonio Express-News/ZUMA/picture alliance
چینی تارکین وطن کی برطانیہ جانے کی کوشش
18 جون 2008ء کے روز 58 چینی تارکین وطن انگلینڈ کے بندرگاہی شہر ڈوور میں ٹرک کے اندر مردہ پائے گئے۔ ایک ڈچ ٹرک نے تارکین وطن کو بیلجیم سے برطانیہ پہنچایا تھا۔ اس حادثے میں دو افراد زندہ بھی بچ گئے تھے۔ ب ج/ ع ا (اے پی)
تصویر: Edward Crawford/Sopa/Zuma/picture alliance
9 تصاویر1 | 9
سفر خطرناک، کشتیاں غیر محفوظ
اندازہ ہے کہ سمندر میں ڈوب جانے والی اس کشتی کے تاحال لاپتہ درجنوں مسافروں میں سے بھی اکثریت کا تعلق افغانستان ہی سے تھا۔
ایسی کشتیوں میں ترکی سے اٹلی تک کا غیر قانونی سمندری سفر کافی طویل ہوتا ہے اور تارکین وطن انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کی مدد سے زیادہ تر ایسی کشتیوں میں سفر کرتے ہیں، جو بہت بھری ہوئی اور انتہائی غیر محفوظ ہوتی ہیں۔
اسی لیے طوفانی لہروں اور بہت تیز ہواؤں کی وجہ سے ایسی کئی کشتیاں اور بہت سے تارکین وطن سمندر میں ڈوب جاتے ہیں۔
م م / ع ا (ڈی پی اے، روئٹرز)
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔