یونانی شاہراہ پر مہاجرین کی گاڑی کو حادثہ، چھ افراد ہلاک
8 جون 2018
یونان کی شمالی شاہراہ پر مہاجرین سے بھری ہوئی ایک گاڑی کے حادثے میں اطلاعات ہیں کہ تین بچوں سمیت چھ تارکین وطن ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس جیپ میں ڈیڑھ درجن کے قریب افراد کو اسمگل کیا جا رہا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
اشتہار
پولیس کے مطابق یہ حادثہ سولہ مہاجرین سے بھری ایک جیپ کے ساتھ کوالہ کے قصبے کے قریب پیش آیا۔ اس جیپ میں مہاجر مرد، خواتین اور بچے سوار تھے۔ اس ایکسیڈنٹ میں چار افراد شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جیپ بے قابو ہو کر سڑک کے دوسری طرف واقع چٹانوں سے ٹکرا گئی تھی۔
حادثے میں بچ جانے والوں میں سے تین مہاجرین کو سر میں شدید چوٹیں آئی ہیں جبکہ چوتھے تارک وطن کا ہڈیوں کے فریکچر کے باعث آپریشن کیا گیا ہے۔ باقی چھ افراد کو معمولی زخم آئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جیپ کا ڈرائیور بھی مرنے والوں میں شامل ہے جسے مہاجرین کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ کا رکن بتایا گیا ہے۔ یونانی حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے تارکین وطن کا تعلق شام اور عراق سے ہے۔
موریا، دنیا کا ’بدترین مہاجر کیمپ‘
موریا بھی انہی رجسٹریشن مراکز میں سے ایک ہے۔ لمبی قطاروں، ابتر حالات اور بنیادی اشیا کی عدم موجودگی کے باعث موریا کو دنیا کا بدترین مہاجر کیمپ قرار جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
حقیقی مہاجر کون ہے؟
لیسبوس پہنچتے ہی مہاجرین کو قومیت کے حوالے سے الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ شامی باشندوں کو ’تارا کیپی کیمپ‘ منتقل کیا جاتا ہے، جہاں زیادہ تر مہاجرین شلیٹر ہاؤسز میں رکھے جاتے ہیں۔ دیگر کو موریا کیمپ رکھا جاتا ہے۔ یہ سابقہ حراستی مرکز یونان کا پہلا ہاٹ سپاٹ رجسڑیشن کیمپ ہے، جہاں اقتصادی مقاصد کی خاطر نقل مکانی کرنے والوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ یہاں زیادہ تر افراد کیمپوں یا درختوں کے نیچے ہی سوتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بہت زیادہ رش، اہم اشیا کی قلت
اس مقام پر گنجائش سے زیادہ مہاجرین موجود ہیں۔ اس لیے یہاں تنازعات بھی جنم لیتے رہتے ہیں، جیسا کہ خوارک حاصل کرنے کی قطاروں کو توڑنے پر لڑائی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کیمپ میں چار سو دس افراد کی گنجائش ہے جبکہ حقیقت میں وہاں دو تا چار ہزار افراد موجود ہوتے ہیں۔ اس کیمپ میں بنیادی اشیا کی قلت بھی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
خوراک کی کمی
ہالینڈ کے ایک امدادی ادارے کی بانی رومنا برونگرز کے بقول ان کا ادارہ اس کیمپ میں روزانہ ڈیڑھ ہزار افراد کے لیے کھانا پکاتا ہے، لیکن یہ کبھی بھی پورا نہیں ہوتا۔ وہ بتاتی ہیں کہ روز ہی کئی افراد بھوکے رہ جاتے ہیں۔ اس خاتون امدادی کارکن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا ادارہ ہرممکن کوشش کر رہا ہے لیکن مسائل زیادہ بڑے اور گھمبیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
کوڑے کرکٹ میں زندگی
رومنا برونگرز کا کہنا ہے کہ چھتیس رضاکاروں پر مشتمل ان کا گروہ اس کیمپ میں کوڑا کرکٹ کی صفائی اور بہتر نکاسی آب کی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش میں بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کیمپ میں لوگ کوڑے کرکٹ میں ہی سو جاتے ہیں، ’’اس مقام کو صاف ستھرا رکھنا ناممکن ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ حفظان صحت کی ناقص صورتحال کی وجہ سے وبائیں بھی پھوٹ سکتی ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
تحریک کا نہ ہونا
لیسبوس میں رضاکاروں کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ فریڈ مورلٹ اس ابتر صورتحال کے لیے انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول پولیس اہلکار اس کیمپ کے انتظام کی ذمہ دار ہیں لیکن ان میں کچھ کرنے کے تحریک ہی نہیں اور کبھی کبھار تو وہ کام پر آتے ہی نہیں۔ مورلٹ بقول یوں یہاں پہلے سے موجود لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہو پاتی جبکہ مزید لوگ پہنچ جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
پاکستان سے ترکی تک ننگے پاؤں سفر
فیص اللہ (تصویر میں پنک شرٹ میں ملبوس) کے بقول انہوں نے پاکستان سے ترکی تک کا سفر بغیر جوتوں کے ننگے پاؤں ہی طے کیا۔ فیض اللہ کے دوست اسرار احمد (انتہائی دائیں) کے مطابق وہ اس کیمپ میں یونہی سوتے ہیں، بغیر کسی کمبل کے، ’’ہم ایسا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ہمارے بچے ہماری طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور نہ ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
تعاون نہ ہونے کے برابر
امدادی ادارے ’ایکشن ایڈ‘ سے وابستہ قنسطنطینہ سِٹریکوا کی کوشش ہے کہ موسم سرما سے قبل اس کیمپ میں خواتین کے لیے شیلٹر ہاؤسز کا انتظام ہو جائے لیکن پولیس کی مداخلت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو پا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کیمپ کے باہر ایک کنٹینر پڑا ہے، جو رہائش کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم پولیس اسے اس کمیپ میں لانے کی اجازت نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
فیصلہ کون کرے گا؟
بیس سالہ افغان شہری ارشد رحیمی کہتا ہے کہ طالبان کے ایک حملے میں اس کے باپ اور بہن کے کے قتل کے بعد اس کی ماں نے اسے افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ کہتا ہے، ’’مجھے طالبان سے خطرہ لاحق ہے لیکن یہاں لوگ کہتے ہیں کہ میں اقتصادی مقاصد کے لیے نقل مکانی کر رہا ہوں۔‘‘ وہ اس الجھن میں سوال کرتا ہے کہ کون فیصلہ کرے گا کہ وہ مہاجر ہے یا نہیں؟
تصویر: DW/D. Cupolo
گوانتانامو بے جیسی صورتحال
لیسبوس میں رضاکاروں کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ فریڈ مورلٹ اس مقام کو ایک حراستی کیمپ کے مترادف قرار دیتے ہیں، ’’باڑوں اور خار دار تاروں کے ساتھ یہ گوانتانامو کے حراستی کیمپ جیسا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صرف موسم سرما کی وجہ سے ہی لوگ ہجرت کے عمل کو ترک نہیں کریں گے کیونکہ سردیوں میں سمندر قدرے پرسکون رہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’اللہ کے رحم و کرم پر اکیلا‘
افغان شہری یزمان یوسفی کے بقول ، ’’جب میں کشتی پر سوار ہو کر یہاں آ رہا تھا تو سمندر بیچ میں نے محسوس کیا کہ میں اللہ کے رحم وکرم پر ہوں۔‘‘ ایران میں بطور پناہ گزین زندگی بسر کر چکنے والے یوسفی نے مزید کہا کہ وہ اب بھی خود کو خدا کے ساتھ تنہا ہی محسوس کرتا ہے، ’’جیسے میں نے اس کشتی میں محسوس کیا تھا کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں بچ جاؤں گا۔ اس کیمپ میں بھی زندگی بسر کرتے ہوئے بھی میری یہی سوچ ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ گاڑی شمال مشرقی علاقے ایروس سے آئی تھی جو ترکی کے بارڈر سے ملحق ہے۔ یہ علاقہ مشرق وسطی، ایشیا اور افریقہ سے یورپ جانے کی خواہشمند مہاجرین کے لیے مرکزی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ مقامی پولیس نے یہ بھی بتایا ہے کہ حادثے کی وجہ واضح نہیں ہو سکی جبکہ پٹرولنگ کرنے والی گاڑیوں کی جانب سے مہاجرین کی اس جیپ کا تعاقب بھی نہیں کیا جا رہا تھا۔
اس علاقے میں مہاجرین سے بھری گاڑیاں اکثر حادثات کا شکار ہوتی ہیں۔ انسانی اسمگلر ان تارکین وطن کو ایک گاڑی میں بھر کر جلد از جلد تھیسالونیکی پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس دوران یہ پولیس کے تعاقب کرنے کے باعث حادثے سے دوچار بھی ہو جاتی ہیں۔
ص ح/ اے پی
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔