یونانی فیکٹری میں گیس کے باعث دم گھٹنے سے پاکستانی شہری ہلاک
21 دسمبر 2019
یونان کی ایک فیکٹری میں گیس کی وجہ سے دم گھٹنے کے باعث کم از کم ایک پاکستانی شہری ہلاک ہو گیا ہے۔ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ قبل ازیں یونانی میڈیا نے متعدد پاکستانیوں کی ہلاکت کی خبر دی تھی۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی طرف سے ہفتہ اکیس دسمبر کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق یہ واقعہ یونانی دارالحکومت ایتھنز سے تقریباﹰ پچاس کلومیٹر دور واقع ایک چھوٹے سے شہر میں قائم ایک فیکٹری میں جمعرات 19 دسمبر کو پیش آیا۔
اس واقعے کے بعد یونانی ذرائع ابلاغ نے متعدد پاکستانیوں کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی۔ لیکن اسلام آباد میں ملکی دفتر خارجہ کے مطابق دستیاب معلومات سے اب تک یہ تصدیق ہوئی ہے کہ اس فیکٹری میں زہریلی گیس کے باعث دم گھٹنے کے نتیجے میں مجموعی طور پر چار افراد کی موت واقع ہو گئی۔
اس واقعے کے بعد ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ کالیویا (Kalivia) نامی شہر میں مقامی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ آخری خبریں آنے تک یہ تصدیق ہو چکی ہے کہ مرنے والوں میں سے کم از کم ایک پاکستانی شہری تھا جبکہ باقی تین ہلاک شدگان کی شناخت کا تعین ابھی کیا جا رہا ہے۔
یونانی میڈیا کی رپورٹوں کے تناظر میں یہ امکان ابھی اپنی جگہ ہے کہ باقی تین ہلاک شدگان بھی شاید پاکستانی شہری ہی تھے یا پھر وہ ممکنہ طور پر پاکستانی نژاد یونانی شہری بھی ہو سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے کالیویا کی اس فیکٹری میں ہلاک ہو جانے والے پاکستانی شہری یا شہریوں کے اہل خانہ کے لیے اپنے عملے کے اس رکن کا نام بھی جاری کر دیا ہے، جس سے متاثرہ خاندان رابطہ کر سکتے ہیں۔ یہ معلومات ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کے اہلکار عبدالوحید سے ٹیلی فون نمبر 00306940070793 پر رابطہ کر سکے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
م م / ع ح
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔