1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونانی مہاجر کیمپوں میں کورونا وبا کے پھيلاؤ کے خدشات

2 اپریل 2020

جہاں یورپی یونین کے ممالک کورونا وائرس کو شکست دينے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں یونان میں دسیوں ہزار مہاجرین موریہ جیسے پرہجوم کیمپوں میں پھنس گئے ہیں۔ ڈاکٹروں نے وہاں تباہ کن نتائج سے خبردار کیا ہے۔

Griechenland Lesbos-Insel Flüchtlingslager Moria-Elaionas
تصویر: picture-alliance/ANE

ديگر انسانوں سے فاصلہ اختيار کرنا اس وقت جانیں بچانے کے ليے اہم ترين اقدام قرار ديا جا رہا ہے۔ موریہ پناہ گزین کیمپ میں پھنسے 20،000 سے زیادہ افراد کے ليے کورونا وائرس سے بچنےکے ليے معاشرتی دوری اختيار کرنا نا ممکن ہے۔

یہ کیمپ، جو اصل میں 3000 افراد کے ليے تیار کیا گیا ہے، پچھلے چار سالوں میں مسلسل پناہگزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بحران سے دوچار ہے۔ مہاجر اور تارکین وطن یہاں انتہائی تنگجگہ ميں مفلسی اور کسمپرسی میں رہتے ہیں۔ زیادہ تر افغانستان سے ہی آئے ہیں لیکن شامی اورسب صحارا افریقہ کے لوگ بھی ان میں شامل ہیں۔ سینکڑوں افراد ایک بیت الخلا استعمال کرتےہیں۔ ایک ہزار سے زیادہ ایک ہی پانی کا کنیکشن شیئر کرتے ہيں۔ یہاں بار بار ہاتھ دھونے کا سوالہی پیدا نہیں ہو سکتا۔

ہالينڈ کے ڈاکٹروں نے ايک تحریک #SOSMoria شروع کی ہے، جس ميں یورپ بھر سے پانچ ہزارسے زائد ڈاکٹر پہلے ہی شامل ہو چکے ہيں۔ ان ڈاکٹروں کا یہ کہنا ہے کہ  موریہ میں مہاجرین کيمپکا حفظان صحت کا نظام ناقص ہے۔ ڈاکٹروں نے مطالبہ کیا ہے کہ یونان میں کیمپ اور دیگر ہجومکے مقامات کو فوری طور پر خالی کرایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے بھی بڑی تباہی سے بچنےکا یہی واحد طریقہ ہے۔

کیمپ کے بہت سے رہائشی پہلے ہی سے بیمار ہیں

اسٹیون فان ڈیئر فير اور ساں فان ڈیر کوئژ نے مل کر اس مہم کا آغاز کیا۔ دونوں نے حال ہی میں کیمپ موریہ میں مریضوں کا علاج کیا۔ ایمسٹرڈیم میں بطور جنرل پریکٹیشنر کام کرنے والے فان ڈیرکوئژ مشکل ملازمتوں کے عادی ہیں۔ وہ کانگو میں ڈاکٹرز ويدآؤٹ بارڈرز کے ساتھ کام کر چکے ہيں۔

وہ اب بھی یونان کے حالات انتہائی خراب محسوس کرتے ہے۔ ان کے مطابق کورونا پھیلنے کے نتائجناقابل فہم ہیں۔ ان کے مطابق، "22،000 افراد صرف چند مربع کلومیٹر کے رقبے پر رہ رہے ہیں،تقریبا ہر شخص انفیکشن کا شکار ہو چکا ہے۔ بہت سے لوگ پہلے ہی بیمار ہیں اور کمزور مدافعتینظام رکھتے ہیں۔ حقيقی خدشہ یہ ہے کہ ہزاروں افراد مر جائیں گے۔

موریہ کے رہائشیوں کی حفاظت کے ليے کوئی موثر اقدامات نہیں ہیں۔ اس جزیرے پر اس وائرس کوپھیلنے سے روکنے کے ليے یونانی حکام نے کیمپ کو سیل کر دیا اور رہائشیوں کو رات کے وقت اسےچھوڑنے کی اجازت نہیں دی ہے۔

کیمپ میں اب تک کسی کورونا کیس کی اطلاع نہیں ملی ہے لیکن مقامی یونانی آبادی ميں اس وباکے پھيلنے کی اطلاعات ہيں۔ اسٹیون فان ڈیئر فير کے مطابق ان کے بہت سے مریض بہت پریشانہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ممکن ہے کہ جیسے ہی انہیں اپنے اندر موجود حقیقی خطرے کا احساسہو جائے ، رہائشی کیمپ چھوڑ کر پورے جزیرے میں پھیل سکتے ہیں اور اس سے مقامی آبادی کومزید خطرات لاحق ہوں گے۔

تصویر: Dimitris Tosidis/EPA-EFE

طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر

یورپ میں کورونا وائرس پھیلنے سے بہت پہلے ہی موریہ کی صورتحال ڈرامائی تھی۔ ڈاکٹروں کیتحریک #SOSMoria ميں شریک سان وین ڈیر کو‍ژ کے بقول وہ اور کیمپ میں موجود چند دوسرےڈاکٹروں کے پاس مریضوں کے لیے مناسب علاج کی سہولیات موجود نہیں۔ اس ماہر امراض نسواںکا کہنا ہے کہ صورتحال سب ہی کے ليے انتہائی مایوس کن ہے۔ اکثر وہ صرف ايمرجنسی مريضوںکو ہی دیکھ پاتیں ہیں۔ انہوں نے کیمپوں ميں کھانا پکانے یا ٹھنڈ سے بچنے کے ليے آگ کی لپیٹميں آکر جلنے والوں کو ديکھا یا پرتشدد جھڑپوں ميں زخمی ہونے والوں کی حالت بھی ديکھی اسکے علاوہ موریہ میں بہت سے لوگ ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔

بحری جہاز کے ذريعے انخلاء

گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے يورپی یونين کے ایک پارليماںی رکن ایرک مارکورڈ سالوں سےموریہ کی صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونانی جزیروں پر قائم کیمپوں میںحالات منظم ہیں۔ اگر دوسرے مہاجرین کو ترکی عبور کرنے سے روک دیا جائے تو انسانی ہمدردیکی صورتحال کو شعوری طور پر قبول کیا جا سکے گا۔ مارکورڈ کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر وبائیبیماری نے اب تک کچھ نہیں بدلا ہے۔ جنہوں نے عبرت حاصل نہیں کی انہيں اب یہ سمجھنا چاہئےکہ اگر وہ اس حکمت عملی پر عمل پیرا رہے تو واقعی میں بہت ساری ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑےگا۔

ایرک مارکورڈ کا مشورہ ہے کہ کروز جہاز استعمال کيے جانے چاہييں جو وبائی امراض کی وجہسے لنگر انداز ہیں۔ ان کا استعمال لوگوں کی نقل و حرکت کے علاوہ انہيں قرنطینہ میں ڈالنے کےليے بھی کیا جا سکتا ہے۔

ماکس زانڈر / ک م / ا ا

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں