یونانی کیمپوں میں غسل خانے خواتین کے لیے محفوظ نہیں، ایمنسٹی
5 اکتوبر 2018
ایمنسٹی انٹر نیشنل کا کہنا ہے کہ یونانی مہاجر کیمپوں میں مقیم خواتین رات کے وقت بیت الخلاء جانے اور مشترکہ غسل خانے استعمال کرنے سے خوفزدہ رہتی ہیں۔ متعدد حاملہ خواتین کو حفظان صحت کے خلاف حالات میں فرش پر سونا پڑتا ہے۔
اشتہار
عالمی ادارہ برائے مہاجرت یو این ایچ سی آر کے مطابق یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن کی تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ اگرچہ یہ تعداد سن 2015 میں آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کے مقابلے میں کافی کم ہے تاہم پناہ کی درخواستوں کے سست رو اور طویل عمل کے باعث ہزاروں مہاجرین کو یونانی جزائر پر ناکافی سہولیات والے اور گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے ان مہاجر کیمپوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ان کیمپوں میں رہنے والی خواتین اور بچیوں کے لیے روزمرہ عوامل، جیسا کہ مشترکہ غسل خانوں میں نہانا تک خطرناک ہو گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حفظان صحت کے ناقص حالات، پینے کا خراب پانی، فضلے اور گندے پانی کی نالیاں اور چوہوں کی بہتات سے بیماریوں کا ہونا ان کیمپوں میں عام ہے۔
ایمنسٹی نے رپورٹ میں جمہوریہ ری پبلک آف کانگو کی ایک مہاجر خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا،’’کیمپ میں غسل خانوں کے شاور یخ بستہ ہیں اور دروازوں کو لاک بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جب ہم نہا رہے ہوتے ہیں تو مرد اندر آ جاتے ہیں۔ بیت الخلاء میں لائٹ بھی نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی رات کو مجھے ٹوائلٹ جانا ہو تو میں اپنی بہن کو ساتھ لے کر جاتی ہوں۔‘‘
بعض حاملہ خواتین نے ایمنسٹی انٹرنیشنل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس حالت میں بھی فرش پر سونا پڑتا ہے اور زچگی سے قبل ملنے والی طبی نگہداشت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ دیگر خواتین حکومت سے ملنے والی محدود رقم سینیٹری پیڈز پر خرچ کر دیتی ہیں۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ یونانی جزائر کے مہاجر کیمپوں میں رہنے والی بیشتر خواتین محرومی کے احساس سے دو چار ہیں۔ عراق سے یونان آنے والی ایک ایزدی مہاجر خاتون کا اس حوالے سے کہنا تھا،’’ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہمیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ہم میں سے بعض دو سال سے یہاں ہیں اور اب تک کچھ نہیں بدلا۔ نہیں معلوم کہ ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایسی اطلاعات دی ہیں کہ ان کیمپوں میں اسمگلرز اور بعض افراد ہتھیاروں کے ساتھ بھی دیکھے گئے ہیں۔
ص ح / ش ح / نیوز اجنسی
یونانی جزیرے لیسبوس کا موریا کیمپ، مہاجرین پر کیا گزر رہی ہے
لیسبوس کے یونانی جزیرے پر پھنسے ہوئے تارکین وطن کو حالات مزید خراب ہونے کی توقع ہے۔ انسانی بنیادوں پر سہولیات مہیا کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیمیں یا تو اپنا کام سمیٹ کر جانے کی تیاری میں ہیں یا پہلے ہی رخصت ہو چکی ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ایجئین میں پھنسے مہاجرین
مہاجرین کی مد میں نجی فلاحی تنظیموں کو یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ رواں برس اگست میں ختم ہو گئی تھی۔ تب سے یونانی حکومت ہی جزائر پر مقیم پناہ گزینوں کی تنہا دیکھ بھال کر رہی ہے۔ تاہم نہ تو ان مہاجرین کی منتقلی کا کوئی واضح پلان ہے اور نہ ہی اب یہاں مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات میں کوئی تسلسل رہ گیا ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
نہ یہاں نہ وہاں
موریا کا مہاجر کیمپ اور تارکین وطن کے لیے بنائے گئے دوسرے استقبالیہ مراکز میں اب مہاجرین کے نئے گروپوں کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تناؤ کی کیفیت بڑھ رہی ہےاور انفرادی سطح پر ہونے والے جھگڑے جلد ہی نسلی گروپوں کے درمیان سنجیدہ نوعیت کی لڑائی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
حفظان صحت کی سہولتیں
موریا کے باہر عارضی نوعیت کے غسل خانے کے باہر استعمال شدہ شیمپو اور پانی کی بوتلوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ موریا مہاجر کیمپ میں حفظان صحت کی سہولتوں کے فقدان کے باعث بہت سے لوگوں نے صفائی ستھرائی کے لیے دوسرے امکانات تلاش کرنے شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
فیصلے کا انتظار
اریٹیریا کے تارک وطن امان نے اپنے خیمے میں چائے یا پانی کا نہ پوچھنے پر معذرت کی ۔ وہ تین ماہ سے اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کا منتظر ہے۔ امان کا کہنا ہے کہ موریا کیمپ کے اندر کافی زیادہ مسائل ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
’ہم انسان ہیں‘
اس تصویر میں ایک افغان مہاجر موریا مہاجر کیمپ میں ابتر رہائش کی صورتحال کے خلاف احتجاج کے لیے پلے کارڈ بنا رہا ہے۔ احتجاج کرنے والے بیشتر پناہ گزین قریب ایک سال سے لیسبوس پر ہیں اور اپنی درخواستوں پر فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ معلومات کی کمی، ابتر رہائشی صورت حال اور افغانستان واپس بھیجے جانے کا خوف ان تارکین وطن کو مستقل وسوسوں میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
یونان بھی مجبور
لیسبوس کے افغان مہاجرین مجوزہ احتجاج پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے لیسبوس کے جزیرے پر سیاحوں کی آمد میں سن 2015 کی نسبت قریب 75 فیصد کم ہوئی ہے۔ یونان میں جاری اقتصادی بحران نے بھی جزیرے کے حالات پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ہر روز نئے تارکین وطن کی آمد
سن 2015 سے ہی مہاجرین پر لازم ہے کہ وہ اپنی پناہ کی درخواستوں پر حتمی فیصلے تک جزیرے پر رہیں گے۔ متعدد درخواستوں کو روکنے اور اپیل کے طویل عمل کے سبب تارکین وطن کی ایک مختصر تعداد کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔