یونان اورترکی کےدرمیان جزیرے پر پھنسے مہاجرین کا انخلا ضروری
15 اگست 2022
بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی (IRC) نے پیر کے روز مطالبہ کیا کہ یونان اور ترکی کے درمیان ایک چھوٹے سے جزیرے پر پھنسے ہوئے مہاجرین کو فوری طور پر وہاں سے نکالا جائے۔
اشتہار
آئی آر سی نے پیر کے روز پرزور مطالبہ کرتے ہوئے ان 39 شامی پناہ گزینوں کے انخلا کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ یونان اور ترکی کی سرحد سے متصل دریائے ایوروس میں ایک چھوٹے سے جزیرے پر پھنسے ہوئے ہیں۔
یونان کا کہنا ہے کہ یونانی سرزمین سے باہر اس جزیرے پر اسے کسی بھی شخص کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ یہ بات یونانی وزیر برائے امور ترک وطن نوٹیس میتاراچی نے کہی اور بتایا کہ ایتھنز حکومت نے ترکی کو اس سلسلے میں چوکنا کر دیا ہے۔
ترکی کی طرف سے تردید
ترک وزارت داخلہ نے یونان کے اس بیان پر کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا۔ بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی (IRC) کی یونانی شاخ کی ڈائریکٹر دیمیترا کالوگیروپولو نے تاہم ایک بیان میں کہا، ''ہم دونوں طرف کے ذمہ دار حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس جزیرے پر پھنسے ہوئے تارکین وطن کے انخلا کا فوری بندوبست کیا جائے اور ان کی سیاسی پناہ کے لیے کیس سے متعلق منصفانہ اور مکمل رسائی کے طریقہ کار کو بھی یقینی بنایا جائے۔‘‘
آئی آر سی کے مطابق اس جزیرے پر ایک نو سال کی بچی بھی پھنسی ہوئی ہے، جس کی حالت نازک ہے اور اس کی طبی امداد تک کوئی رسائی نہیں۔ ریسکیو کمیٹی نے میڈیا رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس بچی کی ایک پانچ سالہ بہن ایک زہریلے بچھو کے کاٹنے کے نتیجے میں مر چکی ہے۔
یہ واقعہ پناہ گزینوں کی طرف سے یونانی سرزمین تک پہنچنے کے لیے کی گئی کوشش کے دوران اس وقت پیش آیا، جب انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔ کالوگیروپولو کا کہنا تھا، ''ایوروس بارڈر پر یہ تازہ ترین صورت حال اس حقیقت پر روشنی ڈالتی ہے کہ پناہ کے متلاشی افراد کو پیچھے دھکیلنے کا عمل کس حد تک بربریت سے بھرپور ہے اور یہ کہ ہم ان حقائق کو بخوبی جانتے ہیں۔‘‘
یونانی حکام کا موقف
یونانی حکام نے ان میں سے کسی بھی طرح کی معلومات کی تصدیق نہیں کی اور پناہ کے متلاشی افراد کو زبردستی اپنے ملک کے سرحدی علاقوں سے بھگا دینے کی کارروائی کو بار بار دہرانے جیسے دعووں سے بھی انکار کیا ہے۔ یونانی وزیر میتاراچی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''اس امر کی اب تصدیق ہو چکی ہے کہ یہ سب کچھ یونانی سرحد سے باہر ایک مقام پر ہوا اور ہم نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر اس بارے میں ترک حکام کو مطلع کر دیا ہے۔‘‘
دونوں ممالک کے سرحدی محافظوں نے گرچہ سخت حفاظتی اقدامات کیے ہوئے ہیں تاہم یونانی اور ترک ساحلی علاقوں تک پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کے پہنچنے کا عمل جاری ہے۔
دنیا بھر میں خطرات سے بھاگتے ہوئے مہاجرین کی بے بسی
جنگ، ظلم و ستم، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے سبب دنیا بھر میں تقریباﹰ 82.4 ملین افراد تحفظ کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا بچوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: KM Asad/dpa/picture alliance
سمندر میں ڈوبتا بچہ
یہ بچہ صرف دو مہینے کا تھا جب ہسپانوی پولیس کے ایک غوطہ خور نے اسے ڈوبنے سے بچایا تھا۔ گزشتہ ماہ ہزاروں افراد نے مراکش سے بحیرہ روم کو عبور کرتے ہوئے یورپ پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ اس تصویر کو خود مختار ہسپانوی شہر سبتہ میں مہاجرین کے بحران کی نمایاں عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Guardia Civil/AP Photo/picture alliance
کوئی امید نظر نہیں آتی
بحیرہ روم دنیا کے خطرناک ترین غیرقانونی نقل مکانی کے راستوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے افریقی پناہ گزین سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے میں ناکامی کے بعد لیبیا میں پھنس جاتے ہیں۔ طرابلس میں یہ نوجوان، جن میں سے بہت سے ابھی بھی نابالغ ہیں، لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کو اکثر مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: MAHMUD TURKIA/AFP via Getty Images
سوٹ کیس میں بند زندگی
بنگلہ دیش میں کوکس بازار کا مہاجر کیمپ دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہوں میں سے ایک ہے، جہاں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں وہاں بچوں پر تشدد، منشیات، انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر اور چائلڈ میرج جیسے مسائل کے خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔
تصویر: DANISH SIDDIQUI/REUTERS
حالیہ بحران
ایتھوپیا کے صوبے تیگرائی میں خانہ جنگی نے مہاجرین کے ایک اور بحران کو جنم دے دیا۔ تیگرائی کی 90 فیصد آبادی کا انحصار غیرملکی انسانی امداد پر ہے۔ تقریباﹰ 1.6 ملین افراد سوڈان فرار ہو گئے۔ ان میں سات لاکھ بیس ہزار بچے میں شامل ہیں۔ یہ پناہ گزین عارضی کیمپوں میں پھنسے ہیں اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
تصویر: BAZ RATNER/REUTERS
پناہ گزین کہاں جائیں؟
ترکی میں پھنسے شامی اور افغان پناہ گزین اکثر یونان کے جزیروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونانی جزیرے لیسبوس کے موریا مہاجر کیمپ میں کئی پناہ گزین بستے تھے۔ اس کیمپ میں گزشتہ برس ستمبر میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ موریا کیمپ کی یہ مہاجر فیملی اب ایتھنز میں رہتی ہے لیکن ان کو اپنی اگلی منزل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Karahalis
ایک کٹھن زندگی
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ’افغان بستی ریفیوجی کیمپ‘ میں مقیم افغان بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے۔ یہ کیمپ سن 1979 کے دوران افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد سے موجود ہے۔ وہاں رہائش کا بندوبست انتہائی خراب ہیں۔ اس کیمپ میں پینے کے صاف پانی اور مناسب رہائش کی سہولیات کا فقدان ہے۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
بقائے حیات کے لیے امداد
وینزویلا کے بہت سے خاندان اپنے آبائی ملک میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے ہمسایہ ملک کولمبیا چلے جاتے ہیں۔ وہاں انہیں غیرسرکاری تنظیم ریڈ کراس کی طرف سے طبی اور غذائی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ریڈکراس نے سرحدی قصبے آرائوکیتا کے ایک اسکول میں ایک عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔
تصویر: Luisa Gonzalez/REUTERS
ایک ادھورا انضمام
جرمنی میں بہت سے پناہ گزین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔ جرمن شہر کارلس روہے کے لرنفروئنڈے ہاؤس میں مہاجرین والدین کے بچے جرمن اسکولوں میں داخلے کے لیے تیار تھے لیکن کووڈ انیس کی وبا کے سبب ان بچوں نے جرمن معاشرے میں ضم ہونے کا اہم ترین موقع کھو دیا۔