یونان: جعلی پاسپورٹ کے ذریعے جرمنی آنے کی کوشش، کئی گرفتار
شمشیر حیدر dpa
4 مئی 2017
یونان میں پولیس نے گزشتہ تین روز کے دوران جعلی شناختی دستاویزات کے ذریعے یونان سے جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کا رخ کرنے کی کوشش کرنے والے کئی غیر ملکیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق یونانی سکیورٹی حکام نے گزشتہ تین روز کے دوران جعلی پاسپورٹ اور ترمیم شدہ سفری دستاویزات کی مدد سے یونان سے ہوائی جہاز میں سوار ہو کر جرمنی اور یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک جانے کی کوشش کرنے والے متعدد غیر ملکیوں کو گرفتار کیا ہے۔
ایتھنز سے موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق چار تارکین وطن کو یونانی جزیرے کورفو کے ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ ان چاروں کا تعلق پاکستان سے تھا جن میں سے دو کی عمریں اٹھارہ برس سے کم تھیں۔ یہ چاروں پاکستانی شہری جعلی پاسپورٹ کی مدد سے یونان سے جرمنی جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
یونانی پولیس کے مطابق رواں ہفتے منگل کے روز بھی زاکنتھوس نامی یونانی جزیرے کے ایئرپورٹ سے ایک پاکستانی کو گرفتار کیا گیا جو جعلی دستاویزات کی مدد سے وسطی یورپ جانے کی کوشش کر رہا تھا۔
ان پانچ پاکستانیوں کے علاوہ یونانی حکام نے بارہ افغان شہریوں کو بھی گرفتار کیا ہے۔ پولیس کے مطابق ان افغان باشندوں کو روڈوس، سانتورینی اور ایراکلیون نامی یونانی جزیروں سے گرفتار کیا گیا۔ یہ افراد بھی جعلی پاسپورٹوں کی مدد سے جرمنی اور مغربی یورپ کے دیگر ممالک جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
یونانی حکام کے مطابق جعلسازی کے ذریعے مغربی یورپ جانے کی کوشش کرنے والے افراد کے پاس اٹلی، جنوبی کوریا، بلغاریہ اور فرانس کے جعلی پاسپورٹ تھے۔ جرمن نیوز ایجنسی سے گفت گو کرتے ہوئے یونانی پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ یونان میں تین ہزار سے لے کر سات ہزار یورو تک کی رقم کے عوض جعلی پاسپورٹ تیار کیے جاتے ہیں۔
حکام کے مطابق موسم بہار کے بعد یونانی جزیروں پر سیاحوں کا رش ہوتا ہے اور اسی دوران رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یونان میں موجود تارکین وطن جعلی سفری دستاویزات کی مدد سے دیگر یورپی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔