یونانی پولیس نے کہا ہے کہ ملک کے شمالی حصے سے دو پاکستانیوں کی مبینہ قید سے پچاس مہاجرین کو آزاد کر لیا گیا ہے۔ شبہ ہے کہ یہ پاکستانی ان مہاجرین کے گھر والوں سے رقوم بٹورنے کی کوشش میں تھے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایتھنز حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ شمالی یونان کے شہر تھیسالونیکی سے پچاس مہاجرین کو قید سے آزاد کر لیا گیا ہے۔ ان مہاجرین کو مبینہ طور پر دو پاکستانیوں نے قید کر رکھا تھا، جو ان کے گھر والوں سے رقوم حاصل کرنے کی کوشش میں تھے۔ حکام نے بتایا ہے کہ آزاد کرائے گئے ان مہاجرین میں سے پانچ ٹین ایجر ایسے بھی ہیں، جنہیں فوری طبی مدد کی ضرورت تھی۔
پاکستانی تارک وطن، جسے یورپ نے دوسری مرتبہ بھی مایوس کیا
02:30
بتایا گیا ہے کہ کم خوارکی اور ابتر حالات میں زندگی بسر کرنے والے ان مہاجرین میں سے ایک کو ڈی ہائیڈریشن اور نمونیہ کے باعث ہسپتال میں بھی داخل کرا دیا گیا ہے۔ ان مہاجرین میں اڑتیس پاکستانی، دس بنگلہ دیشی اور ایک سری لنکا کا باشندہ بھی شامل ہے۔ ان مہاجرین کو تھیسالونیکی میں ایک ایسے کمپلیکس میں رکھا گیا تھا، جو کچھ عرصے سے بالکل خالی تھا۔
پولیس کے مطابق ان مہاجرین میں سے زیادہ تر چھ روز قبل ہی یونان پہنچے تھے جبکہ کچھ ایک روز قبل غیرقانونی طور پر تھیسالونیکی آئے تھے۔ یونانی حکام کے مطابق ان مہاجرین کی حالت زار کے بارے میں ان کے گھر والوں نے ہی یونانی حکام کو مطلع کیا تھا۔ ان مہاجرین کے گھر والوں نے یونانی حکام کو بتایا کہ یہ لوگ قید ہیں اور ان کی آزادی کے لیے انسانی اسمگلر رقوم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پولیس نے بتایا ہے کہ ان مہاجرین کو قید کرنے کے شبے میں دو پاکستانیوں کو حراست میں لیا گیا ہے اور انہیں جمعرات کے دن استغاثہ کے سامنے پیش کرتے ہوئے باقاعدہ فرد جرم عائد کر دی جائے گی۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اغوا اور بلیک میل کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
آزاد کرائے گئے ان مہاجرین میں سے ایک نے پولیس کو بتایا کہ ان لوگوں نے یونان پہنچنے کی خاطر پندرہ سو تا تین ہزار یورو ادا کیے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لیکن جیسے ہی وہ یونان پہنچے تو انسانوں کے اسمگلروں نے انہیں قید کر لیا اور آزادی حاصل کرنے کی خاطر ہر کسی سے فی کس دو ہزار یورو کا مطالبہ کیا۔
یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں اگرچہ کمی ہوئی ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد غیرقانونی طور پر یونان داخل ہونے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ان مہاجرین اور تارکین وطن افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح یورپ کے دیگر ممالک تک پہنچ جائیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد ترکی کے راستے ہی یونان آتے ہیں۔
ع ب / ص ح / اے پی
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔