یونان: رواں برس اب تک 10 ہزار تارکین وطن کی رضاکارانہ واپسی
7 اکتوبر 2018
عالمی ادارہ مہاجرت آئی او ایم کے مطابق اس برس اب تک یونان سے اپنے وطنوں کی جانب رضاکارانہ طور پر لوٹ جانے والے تارکین وطن اور مہاجرین کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ اکثریت کا تعلق پاکستان اور عراق سے تھا۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ایتھنز حکام کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ صرف ستمبر کے مہینے میں یونان میں موجود غیر قانونی تارکین وطن میں سے قریب ایک ہزار افراد رضاکارانہ طور پر اپنے وطنوں کی جانب واپس لوٹے۔ یونانی پولیس اور آئی او ایم کے اہلکاروں کے مطابق اس برس کے آغاز سے لے کر ستمبر کے اختتام تک اپنی مرضی سے اپنے گھروں کو واپس چلے جانے والے غیر قانونی تارکین وطن کی مجموعی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
رضاکارانہ وطن واپسی کا یہ منصوبہ آئی او ایم کے تعاون سے جاری ہے۔ اس منصوبے کے تحت رضاکارانہ طور پر وطن واپس لوٹنے کے خواہش مند غیر قانونی تارکین وطن کو سفری اخراجات کے علاوہ اپنے وطن میں کاروبار شروع کرنے کے لیے بھی مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔
سن 2015 میں یورپ میں مہاجرین کے بحران کے آغاز کے وقت قریب ایک ملین افراد ترکی سے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے یونانی جزیروں پر پہنچے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر نے اس وقت بلقان روٹ کے ذریعے جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کا رخ کیا تھا۔ اگلے برس ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق ایک معاہدہ طے پانے کے بعد بحیرہ ایجیئن کے ذریعے مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی تعداد کم ہو گئی تھی۔
بعد ازاں بلقان ریاستوں کی جانب سے سرحدی نگرانی بڑھا دیے جانے کے باعث یونان میں موجود پناہ کے متلاشی افراد یونان ہی میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ ایتھنز حکام نے بھی نئے آنے والے تارکین وطن کو یونان جزیروں پر محدود کر دیا تھا۔ ان جزیروں پر خصوصی ابتدائی رجسٹریشن مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں یورپ میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔
تاہم لیسبوس اور دیگر جزائر پر تارکین وطن کے لیے بنائی گئی رہائش گاہوں میں گنجائش سے زیادہ مہاجرین رہ رہے ہیں۔ ایتھنز حکام کے مطابق یونانی جزیروں پر اس وقت قریب بیس ہزار پناہ گزین رہ رہے ہیں۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔