’یونان سے واپسی‘ ترکی میں دو مہاجر سینٹرز کی تعمیر شروع
عاطف بلوچ2 اپریل 2016
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والی ڈیل کے تحت یونان سے واپس ترکی روانہ کیے جانے والے شامی اور دیگر مہاجرین کے لیے ترکی میں دو استقبالیہ سینٹرز بنائے جا رہے ہیں۔
اشتہار
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والی اس ڈیل پر عملدرآمد چار اپریل بروز پیر سے شروع ہو رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق یونان اور ترکی نے اس تناظر میں مؤثر اقدامات نہیں اٹھائے ہیں، جس کی وجہ سے مہاجرین کی ترکی منتقلی میں انتظامی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ آج بروز ہفتہ ترک حکام نے بتایا ہے کہ اس ڈیل پر کامیاب عملدرآمد کے لیے کام شروع کر دیا گیا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق ترکی میں دو پراسیس سینٹرز بنائے جا رہے ہیں، جہاں پر یونان سے واپس آنے والے مہاجرین کی رجسٹریشن کی جائے گی۔ اس متنازعہ ڈیل کے تحت ترکی ایسے مہاجرین کو واپس لینے پر رضامند ہو گیا ہے، جو بحیرہ ایجیئن کے راستے غیر قانونی طور پر ترکی سے یونان پہنچے تھے۔
مہاجرين کا بحران : پناہ گزينوں میں پاکستانی کتنے؟
ان دنوں دنيا کے معتدد شورش زدہ ممالک سے پناہ گزين يورپ کا رخ کر رہے ہيں۔ اگرچہ ان ميں پاکستانی مہاجرين کی تعداد مقابلتاً کافی کم ہے تاہم گزشتہ ايک برس ميں يہ تعداد پچھلے پانچ برسوں کی نسبت دوگنا سے بھی زيادہ بڑھ گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL/D. Puklavec
سالانہ چودہ ہزار پاکستانی پناہ گزين
گزشتہ پانچ برسوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو اس دوران سالانہ اوسطاﹰ قریب چودہ ہزار پاکستانی شہری پناہ کی تلاش میں یورپ پہنچے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
ایک سال میں بتيس ہزار پاکستانی
گزشتہ دس ماہ کے دوران قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں نے يورپی يونين کے رکن ممالک ميں سياسی پناہ کی باقاعدہ درخواستیں جمع کرائیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Barukcic
درخواستوں کے اعتبار سے ہنگری سر فہرست
گزشتہ دس مہینوں (دسمبر 2014ء تا ستمبر 2015ء) کے دوران پاکستانی شہریوں کی جانب سے پناہ کی سب سے زیادہ درخواستیں ہنگری میں جمع کرائی گئیں۔ اس عرصے کے دوران ہنگری میں ایسے درخواست دہندہ پاکستانی شہریوں کی تعداد تیرہ ہزار سے زائد رہی۔
تصویر: Reuters/O. Teofilovski
ہنگری کے بعد جرمنی
ہنگری کے بعد پاکستانی مہاجرین نے سب سے زیادہ تعداد میں جرمنی کا رخ کیا، جہاں انہی دس مہینوں کے دوران ساڑھے پانچ ہزار سے زائد پاکستانی پناہ کی درخواستیں دے چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Dalder
چار ہزار پاکستانی اٹلی ميں بھی
اسی طرح ان دس مہینوں میں اٹلی میں بھی چار ہزار سے زائد پاکستانی اپنے لیے پناہ سے متعلق قانونی عمل کا آغاز کر چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/A. Widak
حتمی منظوری کا انتظار
یوروسٹیٹ کے ڈیٹا کے مطابق برطانیہ، آسٹریا، فرانس اور یونان میں ایسے پاکستانی درخواست دہندگان کی تعداد چھ ہزار سے زائد ہے، جو اب وہاں اپنے لیے پناہ کی حتمی منظوری کے انتظار میں ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
مرد اکثریت میں
اگر ان پاکستانی تارکین وطن کی عمروں کو دیکھا جائے تو قریب بتیس ہزار میں سے ساڑھے چوبیس ہزار سے زائد ایسے پاکستانیوں کی عمریں اٹھارہ اور چونتیس برس کے درمیان ہیں۔ پناہ کے متلاشی اکثريتی پاکستانی نوجوان مرد ہيں۔
تصویر: Getty Images/M.Cardy
بچے اور ستر بوڑھے بھی درخواست گزار
ان میں ایک ہزار سے زائد وہ بچے بھی شامل ہیں، جن کی عمریں چودہ برس سے کم ہیں۔ ان میں سے 70 درخواست دہندگان تو ایسے بھی ہیں، جن کی عمریں 65 برس سے زیادہ ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Atanasovskia
عورتوں کا تناسب
اگرچہ پاکستان سے ترک وطن کر کے یورپ آنے والے ان شہریوں میں بہت بڑی اکثریت مردوں کی ہے تاہم ان میں 1600 خواتین بھی ہیں۔ ان ڈیڑھ ہزار سے زائد پاکستانی خواتین میں سے 630 کی عمریں اٹھارہ اور چونتیس برس کے درمیان ہیں۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL/D. Puklavec
9 تصاویر1 | 9
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مبصرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس ڈیل پر عملدرآمد کیسے ہو گا، یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے۔ تاہم ترک حکام کے مطابق ازمیر میں بحیرہ ایجیئن کے ساحلی علاقے جَسمے میں ایک سینیٹر قائم کیا جا رہا ہے، جہاں ان مہاجرین کی رجسٹریشن کی جائے گی۔ اسی طرح دکیلی میں ایک اور سینٹر بھی قائم کیا جا رہا ہے۔
مقامی ترک حکام نے بتایا ہے کہ مہاجرین کو مناسب رہائش فراہم کرنے کا انتظام کیا جا رہا ہے، جہاں ان کے لیے عارضی خیمے نصب کیے جا رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس مقام پر مہاجرین کے فنگر پرنٹس لیے جائیں گے اور پھر ابتدائی کارروائی کے بعد انہیں آگے دیگر مراکز میں منتقل کیا جائے گا۔ ترک حکام کے مطابق ان مہاجرین کا طبی معائنہ کرنے کے بعد جتنی جلدی ممکن ہوا، ان کو نزدیکی مہاجر کیمپوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔
ترکی اور یورپی یونین رواں ماہ کے آغاز پر ایک ڈیل پر متفق ہوئے تھے، جس کا مقصد ترکی سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے بند کرنا تھا۔ اس ڈیل کے تحت یورپی یونین نہ صرف ترکی کو مالی امداد فراہم کرے گی بلکہ ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت کی خاطر مذاکراتی عمل میں بھی تیزی لائے گی۔
ترکی میں 2.7 ملین شامی مہاجرین موجود ہیں، جن میں سے بے شمار خطرناک راستوں کے ذریعے یونان پہنچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ یونان سے بعد ازاں دیگر یورپی ممالک جا سکیں۔ زیادہ تر مہاجرین اپنے خوابوں کی آخری منزل کے طور پر جرمنی جانا چاہتے ہیں۔