یونان سے واپس جانے والے پاکستانی مہاجرین کی مالی مدد
13 نومبر 2017
رواں برس یونان سے ہزاروں تارکین وطن کو ان کے آبائی ملکوں میں واپس بھیجا گیا۔ رضاکارانہ طور پر واپس جانے والوں میں پاکستانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ واپس جانے والے پاکستانیوں کو فی کس کتنی رقم ادا کی جا رہی ہے؟
اشتہار
یورپی یونین اور خصوصاﹰ ایتھنز حکومت کی کوشش ہے کہ پیسہ کمانے کی غرض سے غیرقانونی طور آنے والے مہاجرین کو جلد از جلد ان کے ملکوں میں واپس بھیجا جائے لیکن مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے، جب ایسے تارکین وطن کے پاس کوئی شناختی دستاویزات ہی نہیں ہوتیں۔
لیکن سفری اور شناختی دستاویزات کا بندوبست کرنا خود تارکین وطن کے لیے بہت مشکل کام بھی نہیں۔ کئی مہاجرین نے اپنی شناختی اور سفری دستاویزات کسی دوسری جگہ چھپا کر رکھی ہوتی ہیں یا پھر وہ اپنے آبائی ملکوں میں موجود رشتہ داروں کے ذریعے وطن میں رکھی ہوئی دستاویزات منگوا بھی لیتے ہیں۔
ایسے بہت سے پناہ کے متلاشی افراد بھی ہیں، جو اپنے روشن مستقبل کے خواب دیکھ کر یورپ کا رخ کرتے ہیں لیکن مہاجر کیمپوں کے حالات اور مسقبل میں سیاسی پناہ میں حائل کی مشکلات دیکھ کر واپس جانے کا ارادہ کر لیتے ہیں۔
ایسے میں ان مہاجرین کی مدد کرنے والے فلاحی ادارے بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ واپس جانے کی صورت میں انہیں کچھ نہ کچھ رقم ادا کی جائے گی تاکہ وہ واپسی پر کسی چھوٹے موٹے کاروبار کا آغاز کر سکیں۔
اسی طرح رواں برس بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت( آئی او ایم) کی مدد سے سولہ ہزار سے زائد مہاجرین کو ان کے آبائی ملکوں میں واپس بھیجا گیا ہے۔
واپس بھیجے جانے والے مہاجرین میں زیادہ تر کا تعلق پاکستان، البانیا، بنگلہ دیش، افغانستان اور شمالی افریقی ممالک سے تھا۔ یونان میں ایک سکیورٹی افسر کا اس حوالے سے نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’رضاکارانہ طور پر وہ مہاجرین واپس گئے ہیں، جنہیں یقین ہو گیا تھا کہ انہیں کسی یورپی ملک میں سیاسی پناہ نہیں ملے گی۔‘‘
آئی او ایم کی طرف سے واپس جانے والے مہاجرین کو ہوائی ٹکٹیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی طرح واپس جانے والے ہر مہاجر کو پاکستانی ستر ہزار سے دو لاکھ روپے کے برابر رقم بھی فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ واپس پاکستان پہنچ کر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر سکیں۔
یونان میں فی الحال رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد تقریباﹰ ساٹھ ہزار ہے، جنہیں مختلف کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔
یونان میں تارکینِ وطن کی کبھی ختم نہ ہونے والی آزمائشیں
یونان کے دوسرے بڑے شہر تھیسالونیکی کے ریلوے اسٹیشن کے قریب متروکہ ٹرین ویگنوں میں رہنے والے پناہ گزین یونان سے نکلنے کی غرض سے مال گاڑیوں میں گھسنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خطرہ مول نہ لیا تو زندگی کا کیا مزہ
نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ سالہ محمد سے جب ڈی ڈبلیو نے سوال کیا کہ چھپ چھپا کر مال گاڑیوں میں سوار ہونے کی کوشش کتنی خطرناک ہو سکتی ہے تو اُس کا جواب تھا، ’ خطرہ مول نہ لیا تو زندگی کا کیا مزہ۔‘
تصویر: DW/D. Tosidis
پیسے کب تک ساتھ دیں گے؟
الجزائر کے انور ایم اور احمد اے مال گاڑی کے ایک پرانے خالی ڈبّے میں بیٹھے اگلی مال گاڑی کا انتظار کر رہے ہیں۔ انور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ ایک جعلی پاسپورٹ 1500 یورو میں بنتا ہے اور انسانی اسمگلر پورٹ آف پترس سے اٹلی تک کے 600 یورو لیتے ہیں۔ میرے پاس صرف 25 یورو ہیں جنہیں میں سربیا کے لیے بچا کے رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D. Tosidis
حتمی منزل؟
الجزائر کا 29 سالہ مہاجر ذکی ایک متروک ٹرین ویگن کے اندر آرام کر رہا ہے۔ وہ نو ماہ قبل یونان پنہچا تھا۔ ذکی نے ایک ماہ زیتون کے ایک باغ میں کام بھی کیا۔ اُس نے چھ مرتبہ جرمنی جانے کی کوشش کی۔ اُس کی آخری کوشش کسی حد تک کامیاب ہو گئی اور اب وہ کم از کم بلقان میں تو موجود ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
ٹرین کہیں لے کر نہیں جاتی
ایک مراکشی تارکِ وطن ایک پرانی ٹرین کے اندر بیٹھا یونان سے اپنے فرار کا منصوبہ تیار کر رہا ہے۔ اس تارکِ وطن کا کہنا ہے کہ وہ تین بار یونانی مقدونیائی سرحد پر اور ایک بار پورٹ آف پترس پر پکڑا گیا جب وہ ایک ٹرک میں چھپ کر آگے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔
تصویر: DW/D. Tosidis
چھپنے کا وقت
سولہ سالہ جلوان 23 سال کے عبدالرحمن کو مال گاڑی کے نچلے حصے میں میں چھپنے میں مدد دے رہا ہے۔ یہ مال گاڑی ایک اسٹیشن پر انجنوں کی تبدیلی کے لیے رکی ہے۔ سکیورٹی گارڈز کے مطابق یہ وہ پہلی جگہ ہے جہاں سے مقدونین پولیس تلاش کا عمل شروع کرتی ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
مہاجرین کی نامعلوم منزل
چونکہ مال برادر ریل گاڑیوں کا ٹائم ٹیبل پہلے سے طے نہیں ہوتا اس لیے ان پر سوار ہونے والے تارکینِ وطن کو یہ علم نہیں ہوتا کہ ٹرین انہیں کہاں پہنچائے گی۔ مہاجرین کی شمال میں ترجیحی سرحد کے بجائے کبھی کبھی یہ ایتھنز پہنچ جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
آخری ہدایات
الجزائر سے تعلق رکھنے والا ایک تارک وطن اپنے دوست کو آخری ہدایات دے رہا کہ دھات لے جانے والی مال گاڑی میں خود کو کس طرح چھپانا ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
فرار کا راستہ
نوجوان تارکینِ وطن علاقے میں گشت پر مامور نجی سکیورٹی گارڈز سے چھپنے کے لیے ٹرین سے چھلانگ لگا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
اشیائے خورد و نوش کی فراہمی
تارکِ وطن محمد قریبی مہاجر کیمپ سے اپنے دوستوں کے لیے خوراک اور پانی لے کر جا رہا ہے جو پہلے سے ایک مال گاڑی میں چھپے ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
یونانی ریلوے کارکنوں نے بھی آنکھیں بند کر لیں
تھیسالونیکی کے ریلوے اسٹیشن پر مامور ریلوے کارکن دوپہر کے وقفے میں تاش کھیلتے ہیں۔ ایک ریلوے کارکن کا کہنا ہے،’’ ایک دن یہ تارکینِ وطن ٹرین میں چھپ کر جاتے ہیں اور اگلے ہی روز واپس آجاتے ہیں۔ گزشتہ موسمِ گرما سے یہ روز ہو رہا ہے۔ یہ خطرناک ہے لیکن اُن کو روکنے کے لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘
تصویر: DW/D. Tosidis
خطرے کا نشان
یونانی حکام نے عربی زبان میں ریلوے لائن کے اوپر سے گزرنے والی بجلی کی تاروں کے حوالے سے وارننگ سائن آویزاں کر رکھا ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایک الجیرین تارکِ وطن ٹرین پر کودنے کی کوشش میں کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔