یونان سے ہزاروں مہاجرین کی وطن واپسی، سب سے زیادہ پاکستانی
4 مئی 2018
اقوام متحدہ کی نگرانی میں گزشتہ دو برسوں میں دس ہزار کے قریب تارکین وطن یونان سے اُن کے آبائی ملکوں میں واپس بھیجے گئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانی مہاجرین کی ہے۔
اشتہار
عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے آج بروز جمعہ جینیوا میں کہا ہے کہ یونان سے اپنے آبائی ممالک واپس بھیجے جانے والے دس ہزار مہاجرین کے لیے یونان میں ملازمت ذاتی زندگی کے حوالے سے کوئی خاص امکانات موجود نہیں تھے اس لیے وہ رضاکارانہ طور پر اپنے ملکوں میں واپس لوٹ گئے ہیں۔
واپس جانے والے تارکین وطن میں سب سے زیادہ پاکستانی شہری تھے جن کی تعداد تین ہزار ایک سو پانچ تھی۔ اس کے علاوہ دو ہزار کے قریب عراقی، ایک ہزار چھیانوے افغان اور ایک ہزار چوالیس کے قریب جارجیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین شامل تھے۔
یونان سے مہاجرین کی واپسی کا اس پروگرام کا آغاز جون سن دو ہزار سولہ میں کیا گیا تھا اور اس کے لیے مالی فنڈز یورپی یونین اور یونان کی حکومت نے مہیا کیے تھے۔
اس پروگرام کے تناظر میں عالمی ادارہ مہاجرت یا آئی ایم او رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے مہاجرین کو مشاورت بھی فراہم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اپنے ملک میں طبی دیکھ بھال، عارضی رہائش، کوئی روزگار شروع کرنے کے لیے مالی معاونت اور بچوں کی درس وتدریس کے حوالے سے بھی مدد کی جاتی ہے۔
عالمی ادارہ مہاجرت نے یہ بھی بتایا ہے کہ رواں برس اوائل جنوری سے لے کر مئی کے آغاز تک بحیرہء روم کے راستے یورپ آنے والے تارکین وطن کی تعداد بائیس ہزار پانچ سو کے قریب رہی۔
ان مہاجرین میں سے بیالیس فیصد اٹلی کے ساحلی علاقوں پر اترے جبکہ اڑتیس فیصد یونان اور بیس فیصد اسپین پہنچے۔
آئی ایم او کے مطابق گزشتہ دونوں سالوں کے مختلف دورانیوں میں سمندر کے راستے یورپ پہنطنے والے مہاجرین کی تعداد کا تناسب زیادہ رہا ہے۔
ص ح/ ای پی ڈی
یونان میں تارکینِ وطن کی کبھی ختم نہ ہونے والی آزمائشیں
یونان کے دوسرے بڑے شہر تھیسالونیکی کے ریلوے اسٹیشن کے قریب متروکہ ٹرین ویگنوں میں رہنے والے پناہ گزین یونان سے نکلنے کی غرض سے مال گاڑیوں میں گھسنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خطرہ مول نہ لیا تو زندگی کا کیا مزہ
نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ سالہ محمد سے جب ڈی ڈبلیو نے سوال کیا کہ چھپ چھپا کر مال گاڑیوں میں سوار ہونے کی کوشش کتنی خطرناک ہو سکتی ہے تو اُس کا جواب تھا، ’ خطرہ مول نہ لیا تو زندگی کا کیا مزہ۔‘
تصویر: DW/D. Tosidis
پیسے کب تک ساتھ دیں گے؟
الجزائر کے انور ایم اور احمد اے مال گاڑی کے ایک پرانے خالی ڈبّے میں بیٹھے اگلی مال گاڑی کا انتظار کر رہے ہیں۔ انور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ ایک جعلی پاسپورٹ 1500 یورو میں بنتا ہے اور انسانی اسمگلر پورٹ آف پترس سے اٹلی تک کے 600 یورو لیتے ہیں۔ میرے پاس صرف 25 یورو ہیں جنہیں میں سربیا کے لیے بچا کے رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D. Tosidis
حتمی منزل؟
الجزائر کا 29 سالہ مہاجر ذکی ایک متروک ٹرین ویگن کے اندر آرام کر رہا ہے۔ وہ نو ماہ قبل یونان پنہچا تھا۔ ذکی نے ایک ماہ زیتون کے ایک باغ میں کام بھی کیا۔ اُس نے چھ مرتبہ جرمنی جانے کی کوشش کی۔ اُس کی آخری کوشش کسی حد تک کامیاب ہو گئی اور اب وہ کم از کم بلقان میں تو موجود ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
ٹرین کہیں لے کر نہیں جاتی
ایک مراکشی تارکِ وطن ایک پرانی ٹرین کے اندر بیٹھا یونان سے اپنے فرار کا منصوبہ تیار کر رہا ہے۔ اس تارکِ وطن کا کہنا ہے کہ وہ تین بار یونانی مقدونیائی سرحد پر اور ایک بار پورٹ آف پترس پر پکڑا گیا جب وہ ایک ٹرک میں چھپ کر آگے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔
تصویر: DW/D. Tosidis
چھپنے کا وقت
سولہ سالہ جلوان 23 سال کے عبدالرحمن کو مال گاڑی کے نچلے حصے میں میں چھپنے میں مدد دے رہا ہے۔ یہ مال گاڑی ایک اسٹیشن پر انجنوں کی تبدیلی کے لیے رکی ہے۔ سکیورٹی گارڈز کے مطابق یہ وہ پہلی جگہ ہے جہاں سے مقدونین پولیس تلاش کا عمل شروع کرتی ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
مہاجرین کی نامعلوم منزل
چونکہ مال برادر ریل گاڑیوں کا ٹائم ٹیبل پہلے سے طے نہیں ہوتا اس لیے ان پر سوار ہونے والے تارکینِ وطن کو یہ علم نہیں ہوتا کہ ٹرین انہیں کہاں پہنچائے گی۔ مہاجرین کی شمال میں ترجیحی سرحد کے بجائے کبھی کبھی یہ ایتھنز پہنچ جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
آخری ہدایات
الجزائر سے تعلق رکھنے والا ایک تارک وطن اپنے دوست کو آخری ہدایات دے رہا کہ دھات لے جانے والی مال گاڑی میں خود کو کس طرح چھپانا ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
فرار کا راستہ
نوجوان تارکینِ وطن علاقے میں گشت پر مامور نجی سکیورٹی گارڈز سے چھپنے کے لیے ٹرین سے چھلانگ لگا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
اشیائے خورد و نوش کی فراہمی
تارکِ وطن محمد قریبی مہاجر کیمپ سے اپنے دوستوں کے لیے خوراک اور پانی لے کر جا رہا ہے جو پہلے سے ایک مال گاڑی میں چھپے ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
یونانی ریلوے کارکنوں نے بھی آنکھیں بند کر لیں
تھیسالونیکی کے ریلوے اسٹیشن پر مامور ریلوے کارکن دوپہر کے وقفے میں تاش کھیلتے ہیں۔ ایک ریلوے کارکن کا کہنا ہے،’’ ایک دن یہ تارکینِ وطن ٹرین میں چھپ کر جاتے ہیں اور اگلے ہی روز واپس آجاتے ہیں۔ گزشتہ موسمِ گرما سے یہ روز ہو رہا ہے۔ یہ خطرناک ہے لیکن اُن کو روکنے کے لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘
تصویر: DW/D. Tosidis
خطرے کا نشان
یونانی حکام نے عربی زبان میں ریلوے لائن کے اوپر سے گزرنے والی بجلی کی تاروں کے حوالے سے وارننگ سائن آویزاں کر رکھا ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایک الجیرین تارکِ وطن ٹرین پر کودنے کی کوشش میں کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔