یونان کے سیاسی و سماجی حلقوں نے اس قتل کی سخت مذمت کی ہے۔ پولیس دو حملہ آوروں کو تلاش کر رہی ہے۔
اشتہار
حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز دو حملہ آوروں نے اسٹار ٹی وی کے معتبر اور سینئر کرائم رپورٹر جیورجس کارائیواز کو ان کے گھر کے باہر اندھا دھند گولیاں مار کر ہلاک کیا۔
پولیس کے مطابق صحافی کو جنوبی الیموز ضلع میں ان کے گھر کے باہر دوپہر دو بجے کے بعد حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
ایک عینی شاہد نے مقامی ٹیلی ویزن کو بتایا ”میں وہیں رہتا ہوں اور اپنی کار پارک کررہا تھا۔ میں نے سوچا کوئی شخص بے ہوش ہوکر گر پڑا ہے۔ وہ منہ کے بل گرا ہوا تھااور اس کے ایک طرف خون بہہ رہا تھا۔"
پولیس کو جائے واردات سے گولیوں کے سترہ خالی خول برآمد ہوئے ہیں۔ پولیس نے کہا ہے کہ وہ حملہ آوروں کو تلاش کررہی ہے۔
مقامی میڈیا کی خبروں کے مطابق کارائیواز کو بظاہر کوئی دھمکیاں نہیں ملی تھیں اور انہیں اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کسی کی ”قتل کیے جانے والوں کی فہرست" میں شامل ہوسکتے ہیں۔
’میڈیا وائی بلیٹی‘، سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟
سولہ ڈیجیٹل میڈیا اسٹارٹ اپ گروپس ’میڈیا وائی بلیٹی‘ کے لیے کوشاں ہیں۔ میڈیا اداروں کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے اور ’کوالٹی جرنلزم‘ کے لیے انہیں کس طرح کے چیلنجز درپیش ہیں؟ آئیے جانتے ہیں، انہیں کی زب
تصویر: DW Akademie
ڈیجیٹل میڈیا کے بانی
سولہ ڈیجیٹل میڈیا اسٹارٹ اپ گروپس ’میڈیا وائی بلیٹی‘ کے لیے کوشاں ہیں۔ میڈیا اداروں کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے اور ’کوالٹی جرنلزم‘ کے لیے انہیں کس طرح کے چیلنجز درپیش ہیں؟ آئیے جانتے ہیں، انہیں کی زبانی۔
تصویر: DW Akademie
لیکا آنٹڈاز، جورجیا
میڈیا پلیٹ فارم ’چائے خانہ‘ کی بانی لیکا آٹنڈاز کے بقول سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ غیرجانبدار اور منصفانہ رہا جائے، اور ساتھ ہی ان کا میڈیا ادارہ طویل المدتی بنیادوں پر پائیدار مالی مسائل سے بے فکر ہو جائے تاکہ توجہ وفادار صارفین یا آڈئینس بنانے پر صرف کی جائے۔
تصویر: DW Akademie
تانیا مونٹالوو، میکسیکو
’اینیمل پولیٹیک‘ سے وابستہ تانیا منٹالوو کا کہنا ہے کہ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج آزادی اور بلا روک ٹوک معیاری صحافت کرنا ہے۔ ہر وقت یہ ذہن میں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے قارئین کے لیے ایسی کہانیاں موضوع سخن بنائیں، جو ان سے متعلق ہیں یا ان کی زندگیوں پر فرق ڈالتی ہیں۔
تصویر: DW Akademie
ٹیڈیانے ہاماڈو، سینیگال
ڈیجیٹل میڈیا ادارے ’اویسٹف نیوز‘ سے منسلک ٹیڈیانے ہاماڈو کا اصرار ہے کہ اس بات کا یقینی بنانا ضروری ہے کہ عوام کو علم ہو کہ آزاد میڈیا ان کے لیے کیا کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ سینیگال میں میڈٰیا پراجیکٹس میں تعاون فراہم کیے جانے کی روایت نہیں ہے۔
تصویر: DW Akademie
پنگ جن تھم، سنگاپور
’نیو ناراتف‘ نامی ڈیجیٹل میڈٰیا پلیٹ فارم کے لیے فعال پنگ جن تھم سمجھتے ہیں کہ جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں میڈیا فریڈم کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ ان کے نزدیک بڑے مسائل میں حکومتوں کی طرف سے میڈٰیا مخالف قانون سازی اور میڈیا مالکان کا حکومت کے ساتھ ساز باز ہے۔
تصویر: DW Akademie
لوسیا مینینڈز، گوئٹے مالا
’نوماڈا گوئٹے مالا‘ نامی ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم کی روح رواں لوسیا مینینڈز کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ملک میں کامیاب ممبر شپ پروگرام کس طرح شروع کیا جائے، کیونکہ ان کے خیال میں گوئٹے مالا کے لوگوں میں ’کوالٹی جرنلزم‘سے کوئی رغبت نہیں ہے۔
تصویر: DW Akademie
کائریلو لوکرنکو، یوکرائن
ہرومڈسکے ریڈیو سے وابستہ کائریلو لوکرنکو اپنے ملک میں میڈیا وائی بلیٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج قانون کی بالا دستی کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ میڈیا مارکیٹ اور پبلک میڈیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: DW Akademie
لوسیا مارٹینیز، ارجنٹائن
ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم ’چیکیدو‘ کی بانی لوسیا مارٹینیز کا کہنا ہے کہ ایسا آزاد نیوز ادارہ بنانا سب سے بڑا چیلنج ہے، جہاں عوام کو متاثر کرنے والے حقیقی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھا جائے۔ ان کے نزدیک اس طرح کی معیاری صحافت کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔
تصویر: DW Akademie
ڈیوڈ ہڈالگو ویگا، پیرو
’اوجا پبلکو‘ نامی ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم کے لیے کام کرنے والے ڈیوڈ ہڈالگوویگا کہتے ہیں کہ لاطینی امریکی ممالک میں سب سے بڑا چیلنج دراصل صحافت کے لیے پائیدار اور اختراعی طریقہ کار اختیار کرنا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہو جائے تو عوامی مفاد میں اچھی جرنلزم بھی ممکن ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW Akademie
رومان فلیپو، مالدوا
نوجوان ڈیجیٹل میڈیا ایکپسرٹ رومان فلیپو کے بقول ’خطے بھر میں غیرجابندار اعلیٰ کوالٹی کی پراڈکٹ بنانا ایک چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر میڈیا اداروں کے مالکان اشرافیہ سے ملے ہوئے ہیں اور وہ جانبدار ہیں۔
تصویر: DW Akademie
تامارہ قاریئن، اردن
مسلم ملک اردن میں فعال تامارہ نے میڈیا وائی بلیٹی کے لیے اپنا سب سے بڑا چیلنج ، ’’ریونیو، لیڈرشپ اور آرگنائزشنل چیلنجز‘‘۔ کو قرار دیا۔
تصویر: DW Akademie
11 تصاویر1 | 11
قتل پر سخت ردعمل
اس واقعے سے ملک بھر میں صدمے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ حکومت نے جیورجس کارائیواز کے قتل کی سخت مذمت کی ہے۔
سرکاری ترجمان اریسٹوٹیلیا پیلونی نے ایک بیان میں کہا ”اس قتل نے ہم سب کو ہلا کررکھ دیا ہے۔"
یونان میں صحافیوں کی تنظیم ای ایس آئی ای اے کی صدر ماریا انٹونیاڈو نے کہا”اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس طرح وہ صحافیوں کو خاموش کردیں گے تواب بھی 6099دوسرے (صحافی) موجود ہیں جو اس کی تفتیش کریں گے اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا۔"
یورپی کمشنر برائے انسانی حقوق کونسل کے رہنما ڈونچا میجاتووک نے یونانی حکام سے ''اس جرم کی مکمل تفتیش اور قصورواروں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
’بھارت کے زیر انتظام کشمیر ميں صحافت مشکل ترين کام ہے‘
04:44
یونان میں صحافیوں پر حملے
کارائیواز جس جگہ گولی لگنے سے گرے تھے وہاں لوگ بطورعقیدت پھولوں کے گلدستے پیش کررہے ہیں۔ کئی عشروں پر محیط اپنے صحافتی کیریئر میں انہوں نے متعدد یونانی اخبارات اور نشریاتی اداروں کے لیے خدمات سر انجام دیں۔
یونان میں گزشتہ برس جولائی میں ایک جریدے کے مالک اسٹیفانوس چیوس کو ان کے گھر کے باہر گولی مار دی گئی تھی۔ انہیں گردن او ر سینے میں گولیاں لگی تھیں۔ یہ کیس اب بھی زیر تفتیش ہے۔
یونان کے میڈیا اداروں کے دفاتر اکثر حملوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں تاہم صحافیوں کے قتل کے واقعات شاذ ونادر ہی پیش آتے ہیں۔
گیارہ برس قبل نقاب پوش حملہ آوروں نے تحقیقاتی صحافی سقراطس گیولیاس کو ان کی حاملہ بیوی کے سامنے گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔