یونان میں مہاجر بچوں کے لیے یونیسیف کا خصوصی پروگرام
عاطف بلوچ1 جون 2016
اقوام متحدہ کے بچوں کے لیے امدادی ادارے نے کہا ہے کہ وہ یونان میں محصور بائیس ہزار مہاجر بچوں کی بہبود کے لیے اپنے امدادی کاموں میں تیزی لائے گی۔ ناقدین کے مطابق اس بحران کے باعث سب سے زیادہ بچے ہی متاثر ہو رہے ہیں۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے اعلان کیا ہے کہ وہ یونان میں جاری اپنے امدادی کاموں میں تیزی لاتے ہوئے وہاں پناہ حاصل کیے ہوئے بائیس ہزار بچوں کے لیے خصوصی پروگرام شروع کرے گا۔ اس عالمی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق یونان میں موجود کُل مہاجر بچوں میں سے دس فیصد لاوارث ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو درپیش مہاجرین کے شدید بحران کی وجہ سے متعدد ممالک کو انتظامی مسائل کا سامنا ہے۔ انہی ممالک میں یونان بھی شامل ہے، جہاں پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کے مزید سفر کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں وہاں عارضی پناہ گاہوں میں جمع ہونے والے مہاجرین کی تعداد پچاس ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔
یونیسیف نے بتایا ہے کہ جہاں مہاجرین کے اس بحران کے دوران بزرگ افراد اور خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے، وہیں ایسے ہزاروں مہاجر بچے بھی ہیں جو بے یار و مددگار ہیں۔ اس عالمی ادارے نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے، ’’یونیسیف اس بحران سے نمٹنے کے لیے یونان میں اپنی حکمت عملی اور ردعمل کے نظام میں تبدیلی لا رہا ہے۔ اس لیے کہ اس ملک میں بائیس ہزار سے زائد بچوں کو درپیش مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
یونیسیف نے یونان میں مقامی امدادی گروپوں کے ساتھ مل کر بچوں اور خواتین کے لیے خصوصی پروگرام بھی شروع کر رکھے ہیں۔ ایتھنز میں Faros اور Solidarity Now جیسے ادارے یونیسیف کے ساتھ مل کر امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ بندرگاہی شہر پیریئس میں بچوں کے لیے ایک موبائل یونٹ بھی قائم کیا گیا ہے۔
یورپ میں مہاجرین کے بحران کے لیے یونیسیف کی خصوصی کوآرڈینیٹر ماری پیئر پوئریئر Marie-Pierre Poirier کے مطابق ان کا ادارہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایتھنز حکومت اور دیگر امدادی تنظیموں کی مدد سے چلائے جانے والے پروگراموں میں پوری معاونت کرے گا۔
یونیسیف کے مطابق بچوں کے لیے شروع کیے جانے والے نئے پروگراموں میں سب سے زیادہ توجہ تعلیم اور صحت پر دی جائے گی۔ اس ایجنسی کے اندازوں کے مطابق یونان میں کم ازکم دو ہزار بچے ایسے ہیں، جن کا کوئی وارث ان کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ بچے وہ ہیں جو تارکین وطن کے طور پر اپنے طویل سفر کے دوران اپنے والدین یا دیگر رشتہ داروں سے بچھڑ گئے تھے۔
ماری پیئر پوئریئر کے مطابق، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے بحرانوں میں بچے ہی سب سے کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ بچوں پر خصوصی توجہ دی جانا ضروری ہے۔ ان کی تعلیم، صحت، ویکسینیشن اور نفسیاتی صحت کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔‘‘
پریشانی و آلام کے شکار معصوم فرشتے
اس برس عالمی یوم اطفال سے قبل شائد ہی اتنے بڑی تعداد میں بچوں نے جنگوں اور غربت سے فرار ہونے کی کوشش کی ہو۔
تصویر: Reuters/A. Sotunde
غیر یقینی مستقبل
عراق میں فعال انتہا پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی دہشت گردی سے بچنے کے لیے ہزاروں ایزدی بچے بھی رواں برس بے گھر ہو گئے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ بچے کب واپس گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ عراق سے متصل ترک سرحد پر واقع ایک کیمپ میں ایک ایزدی بچے کی آنکھوں میں بھی غیر یقینی کی جھلک نمایاں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کھیلنے کے بجائے کام کاج
جرمنی میں مہاجرین کی اچانک آمد کے بعد اِن مہاجرین کو ہنگامی شیلٹر سینٹرز میں رکھا گیا ہے۔ جرمن صوبے باویریا کے ایک قصبے میں ایک بچہ رات کے لیے بستر بچھانے کی کوشش میں ہے۔ ان تنازعات نے بچوں سے ان کا پچپن بھی چھین لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Ebener
بہتر مستقبل کے لیے پرامید
اگرچہ یہ بچی یونان اور مقدونیہ کے سرحدی علاقے میں پھنسی ہوئی ہے لیکن پھر بھی اس معصوم بچی کا عزم دیکھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران ہزاروں افراد اسی علاقے سے ہوتے ہوئے سربیا داخل ہونے میں کامیاب ہوئے، جن کی اگلی منزل ہنگری تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Vojinovic
تھکن سے بے دھت
کچھا کھچ بھری ٹرین، جو بوڈاپسٹ سے میونخ کے لیے رواں تھی، اس میں مہاجر بچوں کو جہاں جگہ ملی، وہیں سو گئے۔ براستہ بلقان مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش میں یہ بہت تھک چکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/V. Simicek
جنگوں سے فرار کی کوشش
عرب ممالک میں غریب ترین تصور کیا جانے والا ملک یمن اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ ہزاروں افراد اپنے بچوں اور املاک کے ساتھ وہاں جاری جنگ سے فرار کی کوشش میں ہیں۔ اس تنازعے میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
خوارک کے لیے قطاریں
عالمی مدد کے بغیر شام میں بہت سے افراد زندگی سے شکست کھا سکتے ہیں۔ یہ بچے بے صبری سے منتظر ہیں کہ انہیں کھانے کو کچھ مل جائے۔ اِدلب میں قائم ایک کیمپ میں شامی بچوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca
جنگ سے امن تک
تنازعات سے بچ کر یورپ پہنچنے والے بچے اور بالغ افراد وہاں کے نئے نظام سے بھی کچھ پریشان ہیں۔ ٹکٹ کیسی خریدی جائے اور سفر کیسے کیا جائے، یہ بھی ان کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ اس تصویر میں زیریں سیکسنی کے ٹرانسپورٹ منسٹر تھوماس ویبل کچھ بچوں کو ٹکٹ مشین استعمال کرنے کا طریقہ بتا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
آگے بڑھنا ہے
عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق رواں سال افریقہ سے بحیرہ روم کے راستے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ اکیس ہزار بنتی ہے۔ اس کوشش میں چھبیس سو افراد مارے بھی گئے۔ اٹلی پہنچنے والے مہاجرین آگے شمالی یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں، اس لیے ان بچوں کے لیے لامپے ڈوسا کا جزیرہ صرف ایک عارضی مقام ہے۔
تصویر: Reuters/A. Bianchi
بچوں کی توجہ بٹانے کی کوشش
اسکولوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے بچوں کا دھیان بٹانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ میانمار میں مہاجرین کا ایک کیمپ ہے، جہاں بے گھر ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کے بچوں کے لیے ایک اسکول بھی قائم کیا گیا ہے۔ وہاں بچوں کے ذہنوں سے تشدد کے اثرات مٹانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
بچوں کا فوجی مقاصد کے لیے استعمال
براعظم افریقہ کے بہت سے تنازعات میں بچوں کو بھی لڑنے کی تربیت دی جاتی رہی ہے۔ مشکل ہے کہ وہاں بچے اور نو عمر لڑکے ملیشیا گروہوں کے چنگل میں آنے سے بچ نہیں سکتے۔ وسطی افریقی جمہوریہ کے تنازعے میں بھی بچوں کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Braun
بوکو حرام کی تباہ کاریاں
انتہا پسند گروپ بوکو حرام نے بالخصوص شمالی نائجیریا اور ہمسایہ ممالک میں ایک دہشت قائم کر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق ان شدت پسندوں کی وجہ سے چودہ لاکھ بچے بے گھر ہو چکے ہیں۔ نائجیریا کے ایک مہاجر کیمپ میں بھوکے بچے تنازعات سے ماوراء ہو کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش میں ہے۔