یونان میں پاکستانیوں کی تعداد کتنی اور پناہ کتنوں کو ملی؟
شمشیر حیدر
8 جولائی 2018
یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرانے والوں میں پاکستانی شہریوں کی تعداد شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم پاکستانی تارکین وطن کو پناہ ملنے کی شرح نہایت کم ہے۔
اشتہار
یونان میں کن ممالک کے مہاجرین کو پناہ ملنے کے امکانات زیادہ؟
سن 2013 سے لے کر جون سن 2018 تک کے عرصے میں ایک لاکھ 67 ہزار تارکین وطن نے یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے حکام کو اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
1۔ شام
مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے باشندوں نے جمع کرائیں۔ یورپی ممالک میں عام طور پر شامی شہریوں کو باقاعدہ مہاجر تسلیم کیے جانے کی شرح زیادہ ہے۔ یونان میں بھی شامی مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کی شرح 99.6 فیصد رہی۔
تصویر: UNICEF/UN012725/Georgiev
2۔ یمن
پناہ کی تلاش میں یونان کا رخ کرنے والے یمنی شہریوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے اور وہ اس حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ تاہم گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یونانی حکام نے یمن سے تعلق رکھنے والے 97.7 فیصد تارکین وطن کی جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: DW/A. Gabeau
3۔ فلسطین
یمن کی طرح یونان میں پناہ کے حصول کے خواہش مند فلسطینیوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہے۔ سن 2013 سے لے کر اب تک قریب تین ہزار فلسطینی تارکین وطن نے یونان میں حکام کو سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ فلسطینی تارکین وطن کو پناہ ملنے کی شرح 95.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
4۔ اریٹریا
اس عرصے کے دوران یونان میں افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی جمع کرائی گئی پناہ کی کامیاب درخواستوں کی شرح 86.2 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
ٰ5۔ عراق
عراق سے تعلق رکھنے والے قریب انیس ہزار تارکین وطن نے مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ عراقی شہریوں کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب ستر فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
6۔ افغانستان
یونان میں سن 2013 کے اوائل سے جون سن 2018 تک کے عرصے کے دوران سیاسی پناہ کی قریب بیس ہزار درخواستوں کے ساتھ افغان مہاجرین تعداد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر رہے۔ یونان میں افغان شہریوں کی کامیاب درخواستوں کی شرح 69.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/S. Nabil
7۔ ایران
اسی عرصے کے دوران قریب چار ہزار ایرانی شہریوں نے بھی یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ ایرانی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح 58.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
8۔ بنگلہ دیش
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے قریب پانچ ہزار تارکین وطن نے یونان میں حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ بنگلہ دیشی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح محض 3.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/N. Economou
9۔ پاکستان
پاکستانی شہریوں کی یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد شامی مہاجرین کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ جنوری سن 2013 سے لے کر رواں برس جون تک کے عرصے میں 21 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے یونان میں پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ تاہم کامیاب درخواستوں کی شرح 2.4 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
10۔ بھارت
پاکستانی شہریوں کے مقابلے یونان میں بھارتی تارکین وطن کی تعداد بہت کم رہی۔ تاہم مہاجرت سے متعلق یونانی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق محض 2.3 فیصد کے ساتھ بھارتی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح پاکستانی شہریوں سے بھی کم رہی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Eurokinissi
10 تصاویر1 | 10
مائگریشن پالیسی سے متعلق یونانی وفاقی وزارت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اکیس ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں نے یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے حکام کو اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔ یوں پناہ کے خواہش مند پاکستانی شہریوں کی تعداد شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
مجموعی طور پر سن 2014 سے لے کر رواں برس جون کے مہینے تک کے عرصے میں یونان میں سیاسی پناہ کی ایک لاکھ 67 ہزار سے زائد درخواستیں جمع کرائی گئیں۔ ان میں سے ایک تہائی (چھپن ہزار) شامی مہاجرین، جب کہ قریب بیس ہزار افغان شہری بھی شامل ہیں۔
پناہ کے متلاشی پاکستانی شہریوں کی تعداد
یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد مجموعی تعداد کا قریب تیرہ فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ سن 2015 میں یورپ میں مہاجرین کے بحران کے عروج سے قبل تک یونان پہچنے والے تارکین وطن کی اکثریت یونان میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے کی بجائے جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کا رخ کر رہی تھی۔
اسی وجہ سے سن 2013 میں محض چھ سو پاکستانی تارکین وطن نے یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اس کے مقابلے میں سن 2015 میں بلقان کی ریاستوں کی جانب سے زمینی راستے بند کیے جانے کے بعد مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے مغربی یورپ پہنچنے کے امکانات محدود ہوتے گئے تھے۔ اسی وجہ سے اس سے اگلے برس، یعنی سن 2016 میں، پونے پانچ ہزار پاکستانی شہریوں نے یونان ہی میں حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔
تاہم یونان میں پاکستانی شہریوں کی جانب سے سیاسی پناہ کی سب سے زیادہ درخواستیں (قریب نو ہزار) سن 2017 میں جمع کرائی گیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یورپی یونین اور ترکی کے مابین مہاجرین کے حوالے سے طے پانے والے ایک معاہدے پر مارچ 2016ء میں عمل درآمد بھی شروع ہو گیا تھا۔ اس کے بعد یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد بھی نمایاں طور پر کم ہو گئی تھی۔
رضاکارانہ وطن واپسی، آئی او ایم کیسے مدد کرتی ہے؟
03:04
اس دوران یونان میں محصور تارکین وطن، جن کی اکثریت کا تعلق پاکستان، افغانستان اور شام سے ہے، میں سے کئی نے یونان ہی میں اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران بھی ساڑھے تین ہزار سے زائد پاکستانیوں نے یونان میں حکام کو اپنی پناہ کی درخواستیں دی ہیں۔
یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ ان اعداد و شمار میں ایسے پاکستانی تارکین وطن کو شامل نہیں کیا گیا جو غیر قانونی طور پر یونان میں تو موجود ہیں، تاہم ابھی تک وہ سیاسی پناہ کے حصول کے لیے اپنی درخواستیں نہیں جمع کرا سکے ہیں۔
اکثریت پاکستانی نوجوانوں کی
یونانی وزارت کے جاری کردہ ان اعداد و شمار کے مطابق سیاسی پناہ کے پاکستانی درخواست گزاروں کی اکثریت نوجوانوں پر مبنی ہے۔ سیاسی پناہ کے خواہش مند ان پاکستانی شہریوں میں دو فیصد خواتین جب کہ دیگر اٹھانوے فیصد مرد ہیں۔
ان مرد پاکستانی تارکین وطن میں سے بھی 77 فیصد سے زائد کی عمریں اٹھارہ سے چونتیس برس کے مابین ہیں۔ ایتھنز حکومت اور بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت جیسے اداروں نے ملک میں موجود تنہا نابالغ مہاجر بچوں کے لیے بھی کئی طرح کے اقدامات شروع کر رکھے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سے تعلق رکھنے والے نابالغ تارکین وطن کی تعداد بھی قریب ڈیڑھ ہزار بنتی ہے۔
پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کی شرح
پاکستنای تارکین وطن پناہ کی درخواستوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر تو ہیں لیکن پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے کے حوالے سے بھی پاکستان تارکین وطن چوتھے نمبر پر ہیں۔
یونان میں حکام نے سن 2013 سے لے کر سن 2017 تک کے پانچ برسوں کے دوران قریب سترہ ہزار پاکستانی شہریوں کی پناہ کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلے سنائے۔ ان میں سے صرف 295 پاکستانی پناہ کے اہل قرار پائے جب کہ دیگر قریب اٹھانوے فیصد کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘