یونان میں پھنسے مہاجرین اگلے سفر کے لیے بے چین
13 دسمبر 2015گائلو ایک موسیقار ہے۔ وہ ایک ایسی جگہ کی تلاش میں ہے جہاں وہ اطمینان سے گٹار بجا سکے۔ فارس پڑھنا چاہتا ہے۔ محمد بے چین ہے کہ اسے کسی طرح اپنی بیوی اور بچے کی کوئی خبر ملے۔ ہجرت کے سفر میں وہ اس سے جدا ہو گئے تھے۔
یہ تمام مہاجرین یونان میں پھنسے ہوئے ہیں اور آگے کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔ بیشتر کی منزل وسطی اور شمالی یورپی ممالک ہیں۔ تاہم یونانی حکام نے ان کے اگلے سفر پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔
سینتیس سالہ گائلو افریقی ملک کونگو سے بھاگ کر آیا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’ہم انسانی اسمگلرز کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ کیا آپ کسی کو جانتے ہیں؟‘‘
’’میں کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میں بس ایک ایسی جگہ پہنچنا چاہتا ہوں جہاں میں امن سے رہ سکوں، گٹار بجا سکوں۔‘‘
گائلو کا کہنا ہے کہ وہ پیرس میں قیام کو ترجیح دے گا۔
یورپی یونین نے اپنی مہاجرین سے متعلق پالیسی سخت کر دی ہے۔ اس سے قبل مشرق وسطیٰ کے بحران زدہ علاقوں سے طویل سفر کر کے یونان کے ساحلی علاقوں تک پہنچنے والے مہاجرین نسبتاً آسانی کے ساتھ یورپ کے دیگر ممالک پہنچ جایا کرتے تھے۔ تاہم مشرقی یورپی ممالک مہاجرین کے دباؤ سے متاثر ہو کر اپنی سرحدوں پر باڑ لگا رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یورپی یونین سے یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ مہاجرین سے متعلق پالیسیوں کو زیادہ لچک دار نہ بنایا جائے۔
ہفتے کے روز یونان کے وزیر برائے شہری حقوق نیکوس ٹوسکاس کا کہنا تھا، ’’ہم مہاجرین کو مستقل آمد کی اجازت نہیں دے سکتے۔ نہ ہمارا ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ ہماری معیشت۔‘‘
اس ہفتے کے دوران دو ہزار سے زائد افریقی مہاجرین کو حکام نے مقدونیہ سے ملحق سرحد سے اٹھا کر دارالحکومت ایتھنز پہنچایا ہے۔
جرمنی کی نسبت یونان میں مہاجرین کی دیکھ بھال کی صورت حال اتنی اچھی نہیں ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایمرجنسی بنیادوں پر صرف تین سو مہاجرین کو جگہ دے سکتے ہیں۔
محمد نامی مہاجر کا کہنا ہے، ’’ہم فرش پر سوتے ہیں۔ کوئی گدا میسر نہیں ہے۔ گرم پانی کی سہولت نہیں ہے۔‘‘
ان مہاجرین کی اب یہی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح یونان سے وسطی اور شمالی یورپی ممالک پہنچ جائیں۔